وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے بھارت کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جہاں تک مسئلہ کشمیر اور دوطرفہ تعلقات ہیں تو اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن شنگھائی تعاون تنظیم باہمی تعلقات کی بات ہے اس لیے اس میں بھرپور شرکت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے وزیر خارجہ کو ایس سی او میں جتنے بھی وزرائے خارجہ ہیں ان سے الگ الگ ملاقات کا موقع ملا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جہاں تک دوطرفہ تعلقات کی بات ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتے ہیں اور یہ ہمارے ہر منشور کا حصہ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی تسلسل میں شہید محترمہ بےنظیر بھٹو نے اپنی طرف سے کوششیں کیں اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی کوششیں کیں لیکن موجودہ صورتحال میں بالخصوص اگست 2019 میں بھارت کے غیرقانونی یکطرفہ قدم نے نہ صرف عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی بلکہ دوطرفہ تعلقات کی بھی خلاف ورزی کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کے اس قدم نے حالات ایسے تبدیل کردیے ہیں کہ وہ جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی جو ہمیشہ سے یہ کہتی رہی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے چاہئیں اس کے لیے بھی اس بات کا اسپیس ختم ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا اصولی مؤقف ہے کہ اگر بھارت اگست 2019 کے غیرقانونی یکطرفہ اقدام کو واپس لے اور ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جس میں بات چیت ہو سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بات چیت کی جاتی ہے تو اس کے اختتام پر ایک دستاویز آتی ہے جس پر ہمیں بھی اور بھارت کو بھی دستخط کرنے ہوتے ہیں لیکن بھارت نے ایک قدم سے اپنے دوطرفہ معاہدوں، بین الاقوامی عزائم کی خلاف ورزی کی ہے تو اب عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ پہلے کے باہمی معاہدوں کی یکطرفہ خلاف ورزی کر سکتے ہیں تو اگر اب بات چیت شروع ہو اور اس کے نتیجے میں کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو یہ اس کی بھی یکطرفہ خلاف ورزی کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ایس سی او کی ایک خوبی ہے جس میں کچھ ضوابط بنائے ہوئے ہیں اور ہم پر پابندی ہے کہ اپنے مسائل اس فورم پر نہیں اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 2026 میں ایس سی او کی چیئرمین شپ ہمارے پاس ہوگی اور ہماری کوشش ہوگی کہ سفارتی کوششوں سے بھارت بھی کوئی ایسا فیصلہ کرے کہ اس وقت کے اجلاس میں وہ شرکت کریں۔
ایک اور سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم پاکستان میں دہشت گردی کا مقابلہ اس لیے نہیں کرنا چاہتے کہ بھارت نے ہمیں بتایا، ہم دہشت گردی کا مقابلہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں سب سے زیادہ پاکستانی متاثر ہوئے ہیں، ہم اس کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دورہ بھارت پر تنقید کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ بطور وزیر خارجہ میں نے کوشش کی ہے کہ ہماری اندرونی سیاست پاکستان کی سرحدوں تک محدود رہے کیونکہ جب میں باہر جاتا ہوں تو پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہوں جس میں یہ مخصوص پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارتی وزیر خارجہ کے کردار سے مطمئن ہوں اور امید کرتے ہیں کہ 2026 میں جب پاکستان کو اس کی چیئرمین شپ کا موقع ملے گا تو ہم بھی کامیاب اجلاس منعقد کریں گے۔
(بشکریہ:ڈان نیوز)
فیس بک کمینٹ