چمن بارڈر بندش پر احتجاج 50 روز سے جاری تھا۔ پچھلے 10 دنوں سے حکومتی نمائندوں اور لغڑی اتحاد کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔
حکومتی اتحاد نے یہ شرط رکھی کہ آپ لوگ جو پہلے شناختی کارڈ پر صبح بارڈر پار کر کے کاروبار کرتے تھے اور شام کو واپس چمن آتے تھے، اب ایسا نہیں ہو گا۔ آپ لوگوں نے پاسپورٹ بنانے ہیں۔لغڑی اتحاد نے کسی طور پر بھی پاسپورٹ کی شرط ماننے سے انکار کیا۔
حکومت سے مذاکرات میں لغڑی اتحاد آپس میں تقسیم کا شکار ہوا۔ 2 ٹولے بن گئے۔ حکومتی اتحاد کی طرف سے ایم پی اے اصغر خان اچکزئی نے اپنے طور پر مذاکرات شروع کیے۔ اور یہ طے پایا کہ آپ مظاہرین ٹرانزٹ گاڑیوں کو عید تک راستہ دیں اور ایف سی آپ لوگوں کو صرف افغانستان جانے کے لیے پیدل راستہ فراہم کرے گی جس میں سامان لانا منع ہو گا، باقی مذاکرات عید کے بعد کریں گے۔
مظاہرین پہلے ہی تقسیم کا شکار تھے۔ ایک نے ٹرانزٹ گاڑیوں کو راستہ دینے کی حمایت کی اور ایک نے مخالفت۔ بہرحال اس بات پر راضی ہو گئے کہ احتجاج جاری رہے گا
البتہ ٹرانزٹ گاڑیوں کو عید تک راستہ دیں گے۔
کل صبح (یہ پانچ دن پہلے کی بات ہے) سے پیدل راستہ بھی اوپن ہو گا۔ ایف سی اور اصغر اچکزئی کے ساتھ مذاکرات ہو گئے۔ 3 بجے شام ٹرانزٹ کے کنٹینر شروع ہو گئے۔ رات گئے جب وہ ختم ہو گئے، اگلے دن صبح ایف سی اپنے وعدے سے مکر گئی۔ اس روز بھی حالات خراب ہوتے ہوتے بچ گئے۔پھر چمن کے قبائلی عمائدین نے ایف سی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ فیصلہ ہوا کہ کل صبح سے عید تک بارڈر پیدل والوں کے لیے کھلا رہے گا۔
آج (یعنی کل) صبح لوگ فیملیز کے ہمراہ اس امید کے ساتھ بارڈر پہنچ گئے کہ ہم افغانستان جا سکیں گے۔ ایک بار پھر ایف سی وعدے سے مکر گئی۔ حالات کشیدہ ہو گئے۔ عوام کے احتجاج پر مشتعل ہو کر فورسز نے فائرنگ کر دی۔ بات اموات تک جا پہنچی۔ تاحال چمن بارڈر پر حالات کشیدہ ہیں۔یہ کل تک کی آمدہ اطلاعات تھیں۔
اور آج صبح کی تازہ خبر یہ ہے کہ؛
مظاہرین پھر سے باب دوستی پر جمع، سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں شروع، اہلکاروں کی فائرنگ سے مزید 7 مظاہرین زخمی، مظاہرین نے لیویز گاڑی جلا دی۔ مظاہرین کی ہلاکتوں کی تعداد 7 ہو گئی۔ ایف سی اہلکاروں نے دھرنا ٹینٹوں کو جلا دیا، شہر میں کشیدگی، ڈی ایچ کیو اسپتال کے سامنے مظاہرین پر پولیس کی شیلنگ، صوبائی وزرا کمیٹی چمن پہنچنے والی ہے۔ باب دوستی کا کنٹرول پاک فوج نے سنبھال لیا، شہر میں انٹرنیٹ سروسز معطل۔
فیس بک کمینٹ