تلور کے شکار کیلئے عرب شیوخ نت نئی ترکیبیں ایجاد کرتے رہتے ہیں ، شکاریوں نے چولستان میں تلور کے شکار کیلئے زون بنارکھے ہیں ۔ ہر زون میں شکاری فوج کے سپاہیوں کی طرح چوکس و کمر بستہ رہتے ہیں ، وائرلیس اور موبائل کے ذریعے ایک دوسرے کو تلور کی آمد ، پرواز اور سمت سفر کی اطلاع دی جاتی ہے ۔ پھر شکاری لشکر حرکت میں آ جاتے ہیں اور تلور کو شکار کیلئے تربیت یافتہ باز چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ تلور بہت اونچی پرواز کرتا ہے اور باز بھی تلور سے جنگ کیلئے بہت اوپر چلا جاتا ہے ۔ تلور باز کو شکست دینے کیلئے سائنسی حربے بھی استعمال کرتا ہے اور اپنا زہریلا سیال مادہ اس پر پھینکے کی کوشش کرتا ہے تاکہ باز اندھا ہو کر گر پڑے ، اگر اس میں تلور کامیاب نہ ہو سکے تو پھر تلور اور باز کی باقاعدہ جنگ ہوتی ہے، پلٹنے جھپٹنے کے ان داؤ پیچ اور جنگی حربوں کو دور بینوں کے ذریعے دولت مند شکاری بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں اور اگر تلور کے پنجوں کا داؤ چل جائے تو باز نیچے آ گرتا ہے اور اگر باز تلور کو شکار کر لے تو ایسے سمجھیں جیسے کوئی ریاست فتح کرلی ہو ، پھر جشن ہوتا ہے ا ور ایک آدھ کلو تلور کا گوشت جو لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں میں پڑتا ہے ، بڑے شوق سے بھون کر کھایا جاتا ہے۔ یہ عیاشیاں مسلم دنیا کے زوال کا باعث ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے تلور کے شکار پر 1972ء سے پابندی ہے ، کوئی پاکستانی تلور کا شکار نہیں کھیل سکتا، البتہ غیرملکی عرب شکاریوں اور شہزادوں کو تلور کے شکار کیلئے خصوصی پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں تلور معدوم ہو گیا اور سائبریا سے اس کی آمد کا سلسلہ کم ہو گیا ۔ 1983ء میں پشاور میں ایک سمپوزیم تلور کی بقاء کیلئے منعقد ہوا ۔ سمپوزیم میں شرکاء نے جنرل ضیاء الحق سے مطالبہ کیا کہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو بھی تلور کے شکار کی اجازت نہ دی جائے ۔ جنرل ضیاء نے اس پر قطعاً توجہ نہ دی ۔ جنرل ضیا کے بعد پی پی حکومت نے بھی ہماری عرضداشتوں پر توجہ نہیں دی اور پنجاب میں تو جنرل ضیاء کے حامیوں کا مسلسل اقتدار چلا آ رہا ہے ، وہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں انسانوں کی فریاد کہاں سنتے ہیں ؟ ایک غیر ملکی تنظیم ’’ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ‘‘ تلور کی نسل معدوم ہونے سے بچانے کیلئے ایک عرصے سے کام کر رہی ہے ، اس تنظیم کے صدر ’’ پرنس فلپ ‘‘ نے کئی سال پہلے مختلف سربراہان مملکت کو یاداشتیں روانہ کیں جس میں تلور کے شکار پر پابندی کی اپیل کی گئی، ان کی اپیل پر ایران ، تیونس ، مصر اور لیبیا نے پابندی عائد کر دی مگر مراکش، الجزائر اور پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔ حالانکہ اس اہم مسئلے پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایٹمی تباہ کاریوں ، کیمیائی اسلحے کے استعمال ، زرعی ادویات کی وباء ، کارخانوں کے زہریلے دھوئیں سے خصوصاً جنگلوں اور درختوں کے اتلاف کے نتیجے میں صرف جنگلی حیات ہی نہیں موسم بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔ موسموں کی تبدیلی سے صرف زمین ہی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ زیر زمین دنیا بھی تغیرات کا شکار ہے ، زیر زمین پانی آلودہ ، کڑوہ اور خراب ہو رہا ہے اور پانی کا لیول گرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی پلیٹیں ہلنے سے زلزلے بھی آ رہے ہیں ۔ یہ تمام صورتحال آنے والے وقتوں کیلئے نہایت ہی تباہ کن خطرات کی نشاندہی کر رہی ہے ۔ آج یورپ ، امریکا کو جنگوں اور انسانی تباہ کاریوں کی بجائے انسانیت اور کائنات کی بقاء کیلئے دولت خرچ کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح عرب کے مسلم دولت مند ملکوں کو پرندوں کے شکار پر دولت ضائع کرنے کی بجائے ان چرند پرند اور زمین کے جمادات و نباتات کی افزائش پر دولت خرچ کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمین ہی نہ رہی تو پھر شکار کہاں سے آئے گا ؟ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ پرندے اس کائنات کا حسن ہیں ، ان کی چہچہاہٹ ہماری سانسوں اور ہمارے اپنے دل و دماغ کی تازگی ہے اور ان کی بقاء در اصل ہماری اپنی ہی زندگی ہے ۔ ان پرندوں کو خدارا کہیں جانے نہ دیں اور انہیں مرنے نہ دیں ، احمد فراز نے سچ کہا :۔ پیڑ اسی احساس سے مر جاتے ہیں سارے پرندے ہجرت کرجاتے ہیں راہ گیروں کی آوازوں کو غور سے سن یوں ہے جیسے ماتم کر جاتے ہیں بات صرف پرندوں تک محدود نہیں ، یہ ظالم شکاری چولستان کے اصل وارثوں کو بھی دھرتی پر نہیں رہنے دے رہے ۔ اب کا شکار پورا سرائیکی وسیب اس کے وسائل اور یہاں کی بہشت نما سر زمین ہے ، وسیب کے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے اپنے آپ کو اور اپنی دھرتی کو ان شکاریوں سے کیسے بچانا ہے ۔ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ عظیم خطہ وچولستان کے وارث سرائیکی خطے کے لوگ ہیں ۔ کالم کے آغاز پر میں نے یہ عرض کیا تھا کہ چولستان کو پرندوں کے شکاریوں سے بھی بچایا جائے اور زمین کے شکاریوں سے بھی ۔ یہ عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ چولستان میں زمینیں مختلف سکیموں کے نام پر ہتھیائی گئیں ۔ اس کی الگ ایک تاریخ ہے ۔ جن میں سے ایک سولر پارک کا منصوبہ بھی ہے یہ سولر پارک جو کہ سرائیکی وسیب کی سر زمین کو ہتھیانے اور انہیں معاشی طور پر تباہ کرنے کا پس پردہ منصوبہ ہے ‘دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی سنئے کہ یہ منصوبہ سرائیکی وسیب کے لوگ اپنے حصے کی رقم سے بنائیں گے ۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اس رقم میں سے ایک روپیہ بھی سولر پارک پر خرچ نہ کیا جائے اور سولر پارک کے نام پر ہتھیائی گئی 20 ہزار ایکڑ کا معاوضہ جو کہ کم از کم پانچ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے کھربوں میں بنتا ہے ، چولستان اور چولستانیوں کی ترقی کیلئے خرچ کیا جائے اور ہمیشہ کیلئے شمسی پیداوار کی رائلٹی چولستانیوں کو ہر سال ادا کی جائے اور قومی و عالمی لیبر قوانین کے مطابق 80 فیصد ملازمتیں چولستانیوں کو دی جائیں ۔ (ختم شد)
(بشکریہ:روزنامہ 92 نیوز)
فیس بک کمینٹ