”روزنامہ پاکستان میں خبر شائع ہوئی کہ “ سرکاری ٹی وی کے کارکنوں نے جنرل منیجر پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ جنرل منیجر نے کسی ڈرامے کے نام پر لاکھوں روپے خورد برد کرلیے ہیں۔اس خوردبرد میں پی ٹی وی کے دیگر اعلیٰ حکام بھی ملوث ہیں۔ نیب حکام سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے “۔
پی ٹی وی کبھی اکلوتا کماؤپوت ہوا کرتا تھا۔ اس وقت کوئی دوسرا چینل مقابلے پر بھی نہیں تھا اس کے باوجود نہایت معیاری پروگرام ہواکرتے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامہ سیریل چاروں صوبائی مراکز سے ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی۔ ہرنئی سہ ماہی ڈرامے کی بہترین اور یادگار سریلز سامنے آیا کرتی تھیں۔ آج بھی وارث، ایک حقیقت ایک افسانہ، اندھیرا اجالا ، طوطا کہانی، رات ریل اور خط، دریا، ان کہی، دیواریں، جنگل شب دیگ ، جانگلوس، اور کئی دیگر یادگار ڈرامے لوگ یاد کرتے ہیں، ففٹی ففٹی، انکل سرگرم کاکلیاں، سٹوڈیو تھری، تعلیم بالغاں جیسے پروگرام، نیلام گھر، زاویہ اور موسیقی کے کئی یادگار پروگرام اپنی مثال آپ رہے ہیں۔ ان دنوں کسی نہ کسی سہ ماہی میں ادبی حوالے سے بھی پروگرام ہوا کرتے تھے۔ مشاعرے بھی ہرمرکز سے ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے۔ تخلیق کاروں اور فن کاروں کی ایک کھیپ تھی۔ جن میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ڈاکٹر انور سجاد، امجداسلام امجد، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین، یونس جاوید ، اصغر ندیم سید، سلیم چشتی جیسے ڈرامہ نویس بھی شامل تھے۔ ان میں سے بعض آج سرکاری ٹیلیویژن کو چھوڑ گئے ہیں۔ آخراس کی کیا وجوہات ہیں؟ ٹیلیویژن چینلز کی یلغار کے سبب مسابقت کا بازار گرم ہوا اب سرکاری ٹی وی کی ماہانہ فیس دینے کے باوجود لوگ پی ٹی وی کیوں نہیں دیکھتے؟ اس پر بھی غوروفکر کرنی چاہیے۔
اصل مسئلہ یہاں پرائیویٹ پروڈکشن کا ہے پی ٹی وی کے پاس تمام بہترین سٹوڈیوز اور آلات ہونے کے باوجود بھی اپنے پروگرام تیار کرنے کے بجائے باہر سے (پرائیویٹ پروڈکشنز ) سے پروگرام خاص طورپر ڈرامے خریدے جارہے ہیں۔ بعض اداکاروں نے اپنے اپنے پروڈکشن ہاؤسز بنا لیے ہیں بعض مارکیٹنگ والوں سے مل کر پروگرام تیار کرکے بیچتے ہیں۔ اس میں مارکیٹنگ والے اپنا نمایاں حصہ وصول کرتے ہیں، پچھلے دنوں لاہور مرکز کے مارکیٹنگ کے شعبے کی اہم رکن پر ملی بھگت سے پروگرام کے سودے طے ہونے کی باتیں بھی سنی گئیں۔
بعض اوقات تو یہ پروگرام پی ٹی وی ہی کے پروڈیوسر اپنے آلات سے سرکاری ٹی وی کی عمارت سے باہر تیار کرتے ہیں۔ اب تو کوئی پروگرام مارکیٹنگ والوں کی مرضی کے بغیر آن ایئر جاہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرٹینمنٹ کے سبھی پروگرام ڈرامہ، میوزک اور تفریحی شوز اب باہر سے خریدے جاتے ہیں۔ شروع میں تو یہ بہانہ بنایا گیا کہ معمولی گریڈ کے ملازمین کو پروڈیوسر کے کیڈر میں تبدیل ہونے کے سبب معیاری پروگرام پیش نہیں کیے جاسکتے رفتہ رفتہ یہ ”چسکا“ ٹیلی ویژن ہوم کے زوال میں تبدیل ہوتا گیا۔ اور ٹی وی صرف خبرنامہ یا حالات حاضرہ کے حکومتی پروگراموں تک محدود ہوکر رہ گیا۔ عطاءالحق قاسمی جب چیئرمین بنائے گئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ پی ٹی وی اپنے ویران سٹوڈیوز آباد کرے گا اور پرائیویٹ پروڈکشن کے پروگرام خریدنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی لیکن انہیں بھی زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوئی سو انہوں نے بھی اپنے آپ کو اپنے شو تک محدود کرلیا۔ اب تو وہ خود احتساب کے کٹہرے میں ہیں۔
نئی حکومت نے ایک کمیٹی بنادی ہے جو ٹیلی ویژن کے معاملات کو سنبھالے گی مگر تاحال اس پر کوئی زیادہ پیش رفت نظر نہیں آئی ۔ اپنے منظورنظر افراد ہی کو نوازاجارہا ہے۔ سرکاری ٹی وی پر ساری قوم کا حق ہے پاکستانی ادب وثقافت کو فروغ دینے کے لیے اس ادارے کو استعمال ہونا چاہیے۔ اصغرندیم سید، مستنصر حسین تارڑ ،یونس جاوید، امجد اسلام امجد، حسینہ معین ، نورالھدیٰ شاہ ، فاروق قیصر، انور مقصودآج بھی موجود ہیں۔ ان سینئر اورتجربہ کار تخلیق کاروں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ موسیقی اور ادب کے بہترین پروگرام آج بھی تیار ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں نئے ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔
غورکیا جائے کہ لوگ سیاسی ٹاک شوز کیوں دیکھنے لگے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ سرکاری ٹی وی کے تفریحی پروگراموں سے کہیں زیادہ دلچسپ ، سیاسی ٹاک شوز ہوتے ہیں اور ناظرین کے لیے سیاستدانوں کی ایک دوسرے کو گندہ کرنے، الزامات لگانے اور آپس میں دست وگریبان ہونے سے زیادہ تفریحی اور کوئی کیا بات ہوسکتی ہے؟
یہ جو صبح کی نشریات میں خواتین مارننگ شوز کی صورت میں جوکچھ دکھایا جاتا ہے کیا وہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے؟؟ پرائیویٹ چینلز میں عجیب وغریب موضوعات پر ڈرامے ہورہے ہیں۔ بعض ڈراموں میں تو ایک ہی کہانی معمولی سی ردوبدل کے ساتھ دکھائی دیتی ہے، پرائیویٹ چینلز ہمیں انڈین کلچر کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ اگر سرکاری ٹی وی پر معیاری شوز، ڈرامے ہورہے ہوتے تو ان پرائیویٹ چینلز کو کوئی بھی نہ دیکھتا۔ مگر ہوم ٹی وی کے پرائیویٹ پروڈکشنز کے پروگرام خریدنے سے مثالی اور معیاری تفریح میسر نہیں آرہی۔
پی ٹی آئی کو چاہیے کہ سرکاری ٹی وی کو آزاد کردے اور یہاں پاکستانی طرز معاشرت اور ادب وثقافت کو فروغ دینے کی پالیسی پر سختی سے عمل کرایا جائے۔ پی ٹی وی کے زوال کا سبب بننے والے افسران اور عملہ پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کی تحقیق ضروری ہے۔ عمران خان کرپشن ختم کرنے کا اعلان کررہے ہیں تو پاکستان ٹیلی ویژن کے معاملات پر بھی نگاہ کریں اور مارکیٹنگ شعبے کے افسران اور پروڈیوسرز کے اثاثوں کی چھان بین کرائی جائے۔ تاکہ عوام الناس کو بھی پتہ چلے ہمیں موجودہ صورت حال تک لانے والے کون کون سے کردار ہیں ؟۔یہاں اعلیٰ افسران کے منظورنظر خواتین وحضرات کو تو بھاری معاوضے پر رکھا جاتا ہے مگر پروگراموں میں شریک ہونے والوں کے ”چیک“ سال سال بھر تیار نہیں ہوتے۔ ادبی حلقوں میں اکثرمطالبہ کیا جاتا ہے کہ کتاب کلچر اور خاص طورادب کے فروغ کے لیے سرکاری ٹی وی کو استعمال میں لایا جائے ۔ ہرشعبے میں اگر میرٹ کو ملحوظ رکھا جائے تو کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ