احتساب اگر وزیر اعظم عمران خان کے منشور کا اوّلین مقصد ہے تو ان کی حکومت خود ہی اسے متنازعہ، مشتبہ اور ناقابل اعتبار بنانے میں سرگرم ہے۔ پہلے ایک متنازعہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر کابینہ نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین آصف زرداری سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ اشارہ دیا ہے کہ آصف زرداری کو 31 دسمبر تک گرفتار کرلیا جائے گا۔
اس سے پہلے ان افواہوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی کی تقریبات کے بعد آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو جعلی اکاﺅنٹ اسکینڈل اور منی لانڈرنگ الزامات میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کے بارے میں جتنے اقدامات کرے گی، وہ اس کی کارکردگی کے بارے میں نت نئے سوالات کو جنم دیں گے۔ یک طرفہ اور مشکوک احتساب کے بارے میں شبہات قوی ہوں گے۔
عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اداروں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تاکہ کوئی بھی حکومت آئے مملکت کا نظام کسی مداخلت کے بغیر مناسب طریقے سے چلتا رہے۔ یہ ایک خوش آئند اعلان تھا۔ لیکن ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اداروں کو مضبوط کرنے سے کیا یہ مراد ہے کہ حکومت خود ہی ان اداروں کا کام کرنا شروع کردے گی۔ موجودہ حالات میں حکومت جو اقدامات کررہی ہے اور اس کے نمائندے سیاسی مخالفین کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کررہے ہیں، اس کی روشنی میں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کی کردار کشی کا ایک منظم سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔
اس طرز عمل کے مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ صرف فوج یا عدلیہ کی خود مختاری کو اداروں کے استحکام کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ یہ دونوں ادارے خود اپنے طور پر نہ صرف یہ کہ آزاد ہیں بلکہ اس حد تک طاقتور بھی ہیں کہ وہ حکومت تو کیا ملک کے آئین کو بھی مسترد کریں تو کوئی ان سے سوال کرنے والا نہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی مل کر اس مزاج کو راسخ کر رہے ہیں کہ الزام کی بنیاد پر احتساب ہی دراصل عوام کی سب سے بہتر خدمت ہے۔ یہ رویہ غیر جمہوری اور انصاف و قانون کے سب تقاضوں کے منافی ہے۔
فوج ملک کی حکومت کے زیر نگرانی ایک اکائی ہے تاہم ملک میں عدلیہ کے علاوہ بھی ایسے ادارے موجود ہیں جنہیں ملک کا آئین خود مختاری عطا کرتا ہے۔ ان میں اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث ادارہ نیب کا ہے۔ حکومت جس طرح اس ادارے کی غیر جانبداری کو مشکوک بنانے میں سرگرم عمل ہے اور یہ ادارہ اپنے اختیارات کو جس سرگرمی سے موجودہ سیاسی انتظام کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے استعمال کررہا ہے، اس سے خودمختاری کی بجائے گٹھ جوڑ اور ساز باز کا تاثر ابھرتا ہے۔
حکومت کی خواہشات کی تکمیل کرنے والا احتساب کا ادارہ ایک طرف اپنی آئینی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام ہو رہا ہے تو دوسری طرف ان اختیارات کو ہائی پروفائل معاملات میں پروپیگنڈا اور کردار کشی کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اگرچہ ملک کے کنٹرولڈ میڈیا میں ایسے مبصرین کمی نہیں ہے جو نیب کو مظلوم اور راست اقدام کرنے والا ادارہ قرار دینے کے لئے دلائل کے انبار لگا رہے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد جس طرح نیب کے ڈی جی لاہور نے میڈیا کو الزام تراشی اور کردار کشی کے لئے استعمال کیا تھا، اس سے اس ادارے کی غیرجانبداری ایک واضح ایجنڈے کی صوررت اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔
اداروں کو مضبوط بنانے اور ان کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لئے سب سے پہلے پولیس کو خود مختاری دینے کی ضرورت تھی۔ وزیر اعظم اس کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ اعلانات دراصل پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو مطعون کرنے لئے کیے جاتے تھے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پنجاب میں جس طرح پولیس کو کنٹرول کرنے اور اس کے افسروں کو نشان عبرت بنانے کی کارروائیوں کا آغاز ہوا ہے، اس کی گونج اب سپریم کورٹ تک میں سنائی دیتی ہے۔
نیب کے علاوہ عمران خان نے ایف آئی کو براہ راست اپنے کنٹرول میں رکھ کر بھی اپنے اس وعدے کی نفی کی ہے کہ ریاست کے اہم اداروں کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے گا۔ جب وزیر اعظم اداروں کو سیاسی مقاصد کے لئے مخالفین کے خلاف استعمال کریں گے تو ان کی خود مختاری کے علاوہ انصاف کا خون ہوتا بھی سب ہی دیکھیں گے۔ پاکستانی عوام روازانہ کی بنیاد پر اس مزاج کا مشاہدہ کررہے ہیں۔
فیک اکاﺅنٹ اور منی لانڈرنگ کیس میں حکومت کے نمائندوں کی گفتگو اور لب و لہجہ بھی مداخلت کرنے اور اداروں پر اثرانداز ہونے کی خواہش کا ہی آئینہ دار ہے۔ آج کابینہ نے اسی معاملہ میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بنیاد بنا کر کسی عدالتی حکم یا فیصلہ سے پہلے ہی ملک کی اہم پارٹی کے معاون چئیرمین، ملک کے سابق صدر اور قومی اسمبلی کے رکن آصف زرداری، سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور دیگر لوگوں کا نام جس عجلت میں ای سی ایل پر ڈالنے کا اعلان کیا ہے، اس سے بھی حکومت کی بدنیتی اور سیاسی مقاصد عیاں ہیں۔
عمران خان خود دو روز قبل ٹویٹ پیغامات میں نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلہ اور جے آئی ٹی رپورٹ کو کیس اسٹڈی قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین کی بدعنوانیوں کو ملکی اقتصادی مسائل اور عوام کی غربت کی وجہ قرار دے چکے ہیں۔ اب جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر 172 افراد کے نام ای سی ایل پر شامل کرنے کے اعلان اور فواد چوہدری کے اس پیغام کے بعد کہ ’انشاللہ‘ آصف زرداری یہ سال ختم ہونے تک گرفتار ہوجائیں گے، سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ حکومت کو انصاف اور احتساب کی جلدی نہیں ہے بلکہ اس بات کی عجلت ہے کہ جلد از جلد اس کے مخالفین سیاسی منظر نامہ سے غائب ہوجائیں۔
جے آئی ٹی کی بنیاد پر پونے دو سو افراد کی شخصی آزادی پر حملہ حکومت کے ان ارادوں کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ عدالتی اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے اور ماننے کو وقت کا ضیاع سمجھتی ہے۔ اب سرکاری افسروں پر مبنی جے آئی ٹی کی رپورٹیں ہی ’سزا‘ دینے کے لئے کافی سمجھی جائیں گی۔ اس طریقہ پر عمل جاری رہا تو وہ دن دور نہیں، جب کسی تھانے میں درج ہونے والی ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی کے خلاف الزام کو جرم قرار دیتے ہوئے حکومت اسے قید کرنے اور قصور وار سمجھنے کا اعلان کر دے۔
ملک کے نظام کو مستحکم اور شفاف کرنے کے وعدے کرنے والا وزیر اعظم جب اپنے اختیارات کو اس بے دردی سے سیاسی انتقام یا درپردہ سیاسی ایجنڈے کے لئے استعمال کرے گا تو اس سے نہ احتساب ہو سکے گا اور نہ ہی انصاف میسر آئے گا بلکہ نا انصافی اور جبر کی ایک نئی روایت جنم لے گی۔ عمران خان کو خبر ہو کہ اس قسم کی افسوسناک روایت کا اگلا شکار وہ خود ہوں گے۔ جس ایجنڈا کی تکمیل کے لئے وہ اقتدار میں ہیں، اس کی تکمیل نہ ہوئی تو بھی عمران خان کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر وہ ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچ گیا پھر تو عمران خان غیر ضروری ہو ہی جائیں گے۔
اس ایجنڈے کی طرف ایک اشارہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی پر اٹھارویں ترمیم کے خاتمہ کے لئے دباﺅڈال رہی ہے۔ اس طرح ون یونٹ کی طرز پر ایسا نظام استوار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں صوبوں کے اختیارات محدود کردیے جائیں گے اور آمریت یا ایک پارٹی کی حکمرانی ہو گی۔ بلاول بھٹو زرداری ایک اہم پارٹی کے چئیرمین ہیں جو سندھ میں بر سر اقتدار ہے۔ وہ خود بھی قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اٹھارویں ترمیم کے خلاف سازشوں کا ذکر پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں بلاول کا یہ بیان انتہائی تشویش کا سبب ہونا چاہیے۔
نواز شریف کو قید کر کے اور ان کی پارٹی کے دوسرے قائدین کو ہراساں کرکے حکومت، پنجاب میں بے چینی میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔ اب اگر قومی اسمبلی میں سیاسی قوتوں کو بلیک میل یا دباو? کے ذریعے ایسی آئینی ترامیم پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو فوج کی خواہش کے مطابق اختیارات کو وفاق میں مرتکز کر کے کمزور صوبوں کی راہ ہموار کرے گی تو یہ حکمت عملی پاکستان کو مزید کمزور کرنے اور تمام صوبوں میں بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔
اداروں کو مضبوط اور خود مختار کرنے کے عمل کا آغاز پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے سے ہونا چاہیے تھا۔ تاکہ ایک ایسی باحوصلہ پارلیمنٹ سامنے آتی جو اداروں کی مداخلت کو روکنے کا اقدام کرنے کے قابل ہوتی۔ فوج یا سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت کے معاملات میں مداخلت کو ’ایک پیج‘ پر ہونا یا ہم آہنگی قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس سے ملک کے اہم ترین ادارے پارلیمنٹ اور حکومت کی بے بسی اور کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔
طاقت کا اصل منبع پارلیمنٹ کی بجائے دوسرے اداروں کو تسلیم کرکے احتساب، ترقی یا نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی اگر خود فریبی کا شکار نہیں تو وہ کسی سازش کا حصہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر اسی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ