جو بات اس وقت ہر زبان پر آچکی ہے اس کا اندیشہ بہت دیر سے محسوس کیا جارہا تھاکہ تحریک انصاف کی حکومت قومی اہداف پورے کرنے میں ناکام ہے اور اس نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سیاسی مناقشت اور تصادم کا ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت، سماجی و سیاسی رویے اور اہم قومی مسائل نظرانداز ہوئے ہیں۔
اس سیاسی صورت حال میں موجودہ حکومت کو بوجھ اور عمران خان کو ایک جذباتی اور غیر موثر لیڈر سمجھا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت کی تبدیلی کی بات کوٹھوں چڑھ چکی ہے۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا کہ اس حکومت کو جانا ہے تاہم اس کی روانگی کے طریقہ اور وقت کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے۔ یہ صورت حال ملک میں جمہوریت کے منصوبے اور سیاسی استحکام کے لئے بری خبر ہے۔ اگرچہ اس کی ذمہ داری عمران خان اور تحریک انصاف پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن انہیں ’سزا‘ دے کر نہ تو ووٹ کی توقیر میں اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ملکی سیاست سے تصادم کا خاتمہ ہوگا جو بظاہر تمام موجودہ مسائل کی جڑ ہے۔
عمران خان نے جس طرح اقتدار میں رہتے ہوئے سیاسی دشمنی کو انجام تک پہنچانے کے ایجنڈے کو ہی اہم سمجھا ہے، وہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی اپنے اس مقصد کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ بلکہ شاید وہ زیادہ خرابی کا سبب بنیں گے۔ ان کے سیاسی عزائم اور ہتھکنڈوں کے بارے میں غلط فہمی میں رہنا درست نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ ان کا ایک قابل ذکر ووٹ بنک موجود ہے اور حکومت کی ناکامیوں کے باوجود وہ بدستور اپنے لیڈر کی حمایت کرتا ہے۔ لہذا اس حکومت کو کسی مصنوعی طریقے سے ہٹانے کا کوئی بھی عمل دراصل عمران خان کی سیاسی اپیل میں اضافہ کرے گا۔ شاید یہی وہ پہلو ہے جو کسی فوری تبدیلی کے راستے کا پتھر بنا ہوا ہے۔
حکومت کی تبدیلی کے جو دو طریقے قابل عمل ہوسکتے ہیں، ان میں پہلا ان ہاوس تبدیلی کا منصوبہ ہے۔ کسی پارلیمانی جمہوری نظام میں یہ طریقہ اختیار کرنا کوئی معیوب بات نہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاست اصولوں یا منشور کی بجائے ذاتیات اور گروہی مفادات کے لئے کی جاتی ہو ، وہاں ان ہاوس تبدیلی کو جمہوری روایت کی سربلندی سمجھنا بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ اندیشہ ہے کہ یہ طریقہ اسی وقت کامیاب ہوسکے گا جب نام نہاد ’مقتدر حلقے‘ عمران خان کی حکومت کو اتنا بڑا بوجھ سمجھنے لگیں گے کہ ان کی تبدیلی کو ناگزیر قرار دیا جائے۔ ایسی صورت میں محض عمران دشمنی کی بنیاد پر ایسی کسی تبدیلی کی حمایت درحقیقت سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی حیثیت کو تسلیم اور قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔
پارلیمنٹ کے اندر ممکنہ تبدیلی کی خبریں اس وقت عمران خان کے حامی اینکر اور رپورٹر سامنے لارہے ہیں۔ اس حوالے سے شہباز شریف کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین کے کردار کو اہمیت دی جارہی ہے۔ شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کا نظریاتی مخالف سمجھا جاتا ہے۔ نواز شریف ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا کر یہ مطالبہ سامنے لائے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائیندوں کوبااختیار بنایا جائے اور پارلیمنٹ کو خود مختاری سے کام کرنے کا موقع ملے تاکہ سیاسی عمل اور انتظامی فیصلوں میں غیر منتخب اداروں کا کردار آئین کی مقرر کردہ حدود میں ہی رہے۔ ملک میں جمہوریت کے احیا کے لئے ، یہ اہم ترین مو¿قف ہے۔ اس موقف کو کسی حد تک عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے حوالے سے بھی ایک مضبوط رائے سامنے آئی ہے۔ یقیناً عسکری حلقے بھی اس صورت حال کا نوٹس لے رہے ہوں گے کیوں کہ کوئی بھی ادارہ عوام کی رائے کو مسترد کرکے تادیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔
تاہم مسلم لیگ(ن) اپنے قائد نواز شریف کی قیادت میں ’متحد‘ ہونے کے باوجود بطور جماعت ان کے راستے پر چلنے سے خائف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک چونکہ نواز شریف کا مرہون منت ہے لہذا ان کی رائے کے خلاف پارٹی میں کوئی باغیانہ آواز تو سامنے نہیں آئی لیکن پارٹی لیڈر تصادم سے گریز کی پالیسی کا مشورہ دے کر مسلم لیگ (ن) کو بے عمل بنانے اور غیر موثر کرنے میں کردار ادار کرتے رہے ہیں۔ اس رائے کی قیادت نواز شریف ہی کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کر رہے ہیں جو طاقتور حلقوں کے ساتھ ’مل جل کر کام کرنے‘ کی پالیسی کو ہی سب سے مناسب طریقہ سمجھتے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے سیاسی موقف میں اس بعد کے باوجود ابھی تک وہ دونوں ایک ہی سیاسی مقصد کے لئے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
نواز شریف بوجوہ، جن میں ان کی نااہلی کے علاوہ گرفتاری اور قید کی صورت حال بھی شامل ہے، پارٹی کی ان مقاصد کے لئے واضح رہنمائی نہیں کر سکے جن کی وجہ سے ان کے خیال میں انہیں موجودہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی اسی تصویر کا ہی ایک رخ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ملنے والے موجودہ عدالتی ریلیف کو شہباز شریف کی معجز نمائی قرار دیا جاتا ہے۔ سلمان شہباز نے طاقت ور حلقوں سے اپنے والد کے مراسم کے حوالے سے ایک ٹوئٹ پیغام کرکے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ مشکل میں ڈالا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ اس ٹوئٹ کی وجہ سے ہی عمران خان نے اس معااملہ کو لٹکانے کا فیصلہ کیا اور سات ارب روپے سے زائد رقم کے بانڈ دینے کی شرط عائد کی گئی۔
عمران خان کی حکومت گرانے کا دوسرا طریقہ براہ راست فوجی مداخلت کا آپشن ہے۔ پاکستان کو معاشی، سفارتی اور سیاسی لحاظ سے جن مشکلات کا سامنا ہے، ان کے ہوتے یہ امکان نہیں کہ فوج براہ راست مداخلت کا آپشن استعمال کرے گی۔ خاص طور سے جب وہ سیاسی ڈوریاں ہلا کر مطلوبہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ تاہم ماضی کی افسوسناک تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس آپشن کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کے حامی بھی ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں جن کی وجہ سے فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے۔ اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں آئینی نظام کی خواہش کرتے ہوئے بھی غیر آئینی طریقے کا خوف ہر کس و ناکس پر طاری رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیاں اور لیڈر بوقت ضرورت خاص سیاسی ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے غیرآئینی ہتھکنڈوں کو درست سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں۔ ملک کی سیاسی قوتیں حقیقی آئینی انتظام پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی پارٹی کوئی بھی ’مفاہمت‘ کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔
یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ اگر عمران خان کو ان ہاوس تبدیلی کا اندیشہ محسوس ہوا تو وہ اسمبلیاں توڑ کر نیا الیکشن کروانے کی کوشش کریں گے۔ یہ طریقہ جمہوری کہا جاسکتا ہے لیکن عمران خان بمشکل یہ طریقہ اختیار کریں گے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نئے انتخاب میں ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کو ایسے سنہرے خواب دکھا دیے جائیں کہ وہ اس انتہائی اقدام کی طرف پیش قدمی کو ہی اپنے لئے سیاسی بقا کا واحد راستہ سمجھیں۔ اس صورت میں جو بھی تبدیلی رونما ہو ، اس میں ہارنے والا فریق بہر حال ناخوش رہے گا اور احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح جمہوریت اور ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیل کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ملک کی سیاسی طاقتیں اگر عوام دوستی کے دعوے میں دیانت دار ہیں اور ملک میں واقعی آئینی طریقہ حکومت کو ہی واحد راستہ کے طور پر قبول کرنے کی خواہش توانا ہوئی ہے تو اس میں عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی ان ہاو¿س تبدیلی یا دوسری طرح کی سازش یا کوشش کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ خاص طور سے نواز شریف پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عوامی حکمرانی کے نظریہ کی لاج رکھنے کے لئے یہ واضح کریں کہ ووٹ کو عزت دو کا مطلب عمران خان کی حکومت گرانا نہیں ہے بلکہ کسی بھی منتخب پارٹی کو اپنی مدت پوری کرنے اور اپنے منشور کے مطابق تبدیلیاں کرنے کے حق کو یقینی بنانا ہے۔
نواز شریف کے لئے عمران خان کے حق حکمرانی کی تائiد کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن تیس سالہ سیاست کے بعد انہوں نے ووٹ کو اہمیت دینے اور جمہوری انتظام میں اداروں کی عدم مداخلت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کی روشنی میں انہیں عمران خان کے رویہ اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود موجودہ حکومت کو غیر جمہوری طریقوں سے ختم کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کرنا ہوگا۔ انہوں نے اگر شہباز شریف کے ’نظریہ ضرورت‘ کے مطابق ایک بار پھر وقتی سیاسی فائدے کے لئے کسی سطح پر مصالحت کا کوئی راستہ قبول کیا تو وہ ملک میں جمہوری انقلاب برپا کرنے کا نادر موقع گنوا بیٹھیں گے۔
مستقبل کے پاکستان میں ووٹ ہی کو فیصلہ کن قوت قرار دلوانے کے لئے آج تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو روکنا اہم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں نواز شریف کے علاوہ کوئی سیاسی شخصیت یا قوت یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نواز شریف کے لئے ایک سخت گیر سیاسی مخالف کے زوال میں حصہ دار بننا اہم ہے یا وہ واقعی اپنے جمہوری نظریے پر قائم رہیں گے خواہ اس کے لئے انہیں عمران خان جیسے ناکام اور منتقم مزاج شخص کو ہی وزیر اعظم کیوں نہ ماننا پڑے۔ عمران خان کو گرانے اور جمہوریت کو بچانے کے دو بظاہر لازم و ملزوم اقدامات میں جمہوری اصولوں کی دیوار حائل ہو گئی ہے اور یہ وہی اصول ہیں جن کی بالادستی کا پرچم اٹھا کر نواز شریف جی ٹی روڈ پر نکلے تھے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ