اب ہمارے فواد چوہدری کے پاس سیاسی مسائل کا کوئی حل تو بچا نہیں۔ اتحادی بھی ناراض ایک دفعہ نہیں، پھر ناراض۔ تو بہتر یہ ہے کہ کھلاڑیوں میں صلح کرانے کا فرض ادا کیا جائے۔ اس میں وہ کامیاب رہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ عالمی ماحولیات کانفرنس میں انڈیا اڑ گیا کہ آلودگی کو ختم کرنےکے لئے کوئلہ کا استعمال یکسر ختم کر دیا جائے، آخر ہزار بحث کے بعد طے پایا کہ ختم تو ایک دم نہیں ہوسکتا ہے آہستہ آہستہ ختم کردیا جائے۔ البتہ پاکستان کیسے بولے ہمارے تو نئے نئے بجلی بنانے کے منصوبے کوئلے پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔
سوچا جائے کہ ریاستِ مدینہ آخر کو نہ بننے کے مراحل میں ہے، اس کا سبب کیا ہے۔ وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جن پر اعتماد تھا وہ بھی اب کہہ رہے ہیں کہ تین سال میں کوئی بھی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھگوڑے آدھے پیسے بھی دے دیں تو ملک چل جائے گا۔ یہ بالکل نہیں کہا جارہا کہ مقدمے ختم ہو جائیں گے۔
افسانہ چاہے ادبی ہو کہ سیاسی جب تک رخ نہیں بدلتا اور کرداروں میں نئے کردار شامل نہیں کرتا پڑھنے والے کو مایوس کرتا ہے۔ ڈرامے کا کینوس اور طویل ہوتا ہے۔ اس میں رقیب کا کردار کبھی غنڈے کی شکل میں، کبھی ڈاکو کی شکل میں اور موقع پرست کی شکل میں سامنے آتا ہے اب اس اشارے کی وضاحت آپ نے خود 17نومبر کے ٹی وی شو میں ہر کردار کا، اپنا اپنا انداز دیکھ لیا ہوگا، بہت بے عزتی اور نامناسب باتیں ہوئیں، کسی نے کہا پکڑ کے لایا گیا ہوں، کسی نے کہا ڈھونڈ کے لایا گیا ہوں پھر بھی کالے چوروں نے 15بندے غائب کر دیئے تھے۔ انجام پر کسی نے بھی نہیں کہا ’’تم جیتے ہم ہارے‘‘۔ اب صرف مشین کا امتحان باقی ہے۔ مگر مشین کے ٹیسٹ سے پہلے انسانوں کا امتحا ن ہے۔ وہ جو ووٹر توڑے جاتے ہیں۔ وہ جو ڈبے بدلے جاتے ہیں، وہ جوپولنگ ایجنٹ غائب اور سب سے بڑھ کر جو رقمیں بانٹی جاتی ہیں، ایسے نہیں جیسا کشمیر میں وزیر صاحب علی الاعلان ٹی وی کیمروں کے سامنے پیسے بانٹ رہے تھے۔ کیا یہ دلچسپ مناظر غائب ہو جائیں گے۔ یہ بھی خیال رکھیں کہ ہمارے دیہات میں 60فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ مشین پر ہاتھ رکھنا اور ووٹ ڈالنا، جو کوئی بتانے والا ہوگا وہی عجائبات دکھا سکے گا۔ ابھی تو حلقہ بندیاں بدلنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ ابھی تو الیکشن کمیشن کی رائے بھی نہیں لی گئی۔ مشین استعمال کرنے کے طریقے کو جرمنی اور نیدر لینڈ نے ختم کر دیا ہے۔ البتہ انڈیا میں چل رہا ہے۔ شاید اسی طرح سب ہندو امیدوار جیت جاتے ہیں۔ مگر انڈیا میں ہر اسٹیٹ میں یہ سسٹم نہیں چل رہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی کہیں چل رہا ہے اور کہیں نہیں مگر مجھے کس حکیم نے مشورہ دیا کہ اس موضوع پر لکھوں اب نمٹیں الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
آیئے موضوع بدلیں کہ پارلیمنٹ کے مناظر دل خوش کرنے والے نہیں تھے۔ وہ لوگ جو غائب کئے گئے ان کو راشن اور بہت کچھ مل گیا ہوگا۔ یہ مزے مشین کیسےد کھائے گی۔ دیکھ تو مہنگائی نے آنکھیں روشن اور چولھے ٹھنڈے کئے ہوئے ہیں۔ جب انگوٹھوں کے بائیو میٹرک شروع کئے گئے تو مجھ جیسے بوڑھے لوگوں کے انگوٹھوں میں نشان ہی نہیں آتے ۔ اب اس کا علاج کیا ،ہوسکتا ہے۔ ووٹنگ مشین میں بھی جن کے نشانات نہ آتے ہوں گے ان کی جگہ کسی اور نوجوان کی دور بینی کام آسکتی ہے۔ایک ٹکٹ میں دو مزے، خدا جانے کیا کیا ہوگا۔ ہمارے ہی کرتوتوں کے باعث سی پیک پر کام بند ہونے کی افواہیں ہیں۔ پیٹرول مہنگا ہوا، اور پھر ہونے والا ہے۔ تو ہم سب دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہم سائیکلیں استعمال کریں گے۔ ساتھ ہی خبر آگئی کہ سائیکلوں کی قیمت بھی ہزاروں میں بڑھ گئی ہے۔ اب کیا کریں۔ بازار میں آئل خریدنے گئے تو وہ بھی ہاتھ نہ لگانے دے۔ پھر مل کے بیٹھے کہ اب سرسوں کا تیل کھانے میں استعمال کریں گے پوچھا، اس کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے مگر قابو میں ہے۔ چینی اول مل نہیں رہی اور مہنگی تو فیصلہ کیا کہ شکر استعمال کریں گے۔ چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔ سردیاں آگئی تھیں۔ پرانے نسخوں میں پیٹ کیلئے انجیر کھانے کا مشورہ ملا۔ بازار گئے۔ پتہ چلا 400روپے کی ایک پائو۔ چلغوزے کا پوچھا دو ہزار روپے کے ایک پائو۔ آخر کو مونگ پھلی کو بادام سمجھ کر اسی قیمت میں خرید لیا۔ آخر شام کو کھانے کیلئے گڑ کی ریوڑیاں بھی بڑی مشکل سے ملیں۔ اب سوچا چلو دالیں کھانا شروع کریں۔ ارہر کی دال 400روپے کی آدھا کلو۔ لہسن صرف تڑکا لگانے کیلئے مانگا، اس نے کہا 400روپے کلو ہے۔ جتنا چاہیں لے لیں۔ بددلی میں پلٹتے ہوئے، آنکھیں ابل پڑیں۔ دسمبر میں میرے بیٹے کی سالگرہ ہے۔ ڈالر اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ 500 بھی نہیں خرید سکتی۔
میرا خیال ہے کہ وہ روحانی طبیب مولانا کردی سے مشورہ کیا جائے کہ وہ منہ میں انگلی ڈال کر عجیب و غریب علاج کرتے ہیں۔ ان سے بھوک مارنے کا تعویذ لیا جائے کہ اس طرح گھر کے اخراجات کم ہوسکیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ وہ بہت سے ملکوں سے خوار ہو کر آئے ہیں۔ ویسے پاکستانی تو ہیںہی پیر پرست، ممکن ہے یہاں ان کی دال گل جائے گی مگر ہمارے ملک میں دال بھی مہنگی ہے۔ ویسے بھی ان کا دعویٰ ہے کہ وہ روحانی علاج کرتے ہیں۔ دال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ