14 جنوری کو الحمرا ہال میں تھنک فیسٹ کے زیراہتمام ڈاکٹر اشتیاق احمد کی جناح بارے کتاب: محمد علی جناح، ان کی کامیابیاں ناکامیاں اور تاریخ میں ان کا رول کے حوالے سے ایک مکالمہ ہوا۔ اس مکالمے کو ماڈریٹ معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے کیا اور ڈاکٹر اشتیاق کے مقابل اسد رحیم خان تھے۔
مکالمے کے دوران جناح کی سیاست اور سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھے اور گفتگو کے شرکاء نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق سوالات بارے اظہار خیال کیا لیکن ماڈریٹر سلمان اکرم راجہ کا یہ سوال بہت دلچسپ تھا کہ کیا جناح اب پاکستان کی سیاست میں ریلونٹ ہیں اور دوسرا یہ کہ جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کا موقف تھا کہ جناح ہر قیمت پر ہندوستان کی تقسیم چاہتے تھے لیکن تقسیم کے بعد جو ملک وہ بنانے جارہے تھے اس کو کیسے چلانا ہے اور اس کا طرز حکمرانی اور نظام ریاست و سیاست کیا ہوگا اس بارے ان کا ذہن واضح اور متعین نہیں تھا۔
وہ مختلف مجالس میں موقع محل کے مطابق تقریریں کیا کرتے تھے اور ان کی تقریروں کی بنیاد پرپاکستان بارے ان کے ویژن کو مرتب کیا جائے تو وہ تضادات کا مرقع نظر آتاہے۔اگر بار ایسوسی ایشن کا جلسہ ہوتا تو وہ قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کو اپنا مطمع نظر بتاتے لیکن اگر کوئی عوامی اجتماع ہوتا تو وہ مجوزہ پاکستان کو اسلام اصولوں کی لیبارٹری بنانے کی بات کرتے تھے۔
اسد رحیم کا موقف تھا کہ جناح کی ویژن بارے جو کنفیوژن اس وقت موجود ہے اس میں جناح سے زیادہ قصور ان کا ہے جو جناح کی شخصیت کو ہم عصر سیاسی صورت کو جسٹیفائی کرنے کے لئےاستعمال کرتے اور ان کے ویژن کی تعبیرو تفسیر اپنے سیاسی مقاصد کو پیش نظر رکھ کرکرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کا دعوی ہے کہ وہ جناح کے ویژن کے مطابق پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتی ہیں جب کہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ جناح پارلیمنٹرین تھے اور آئین و قانون کی پاسداری پر یقین رکھتے تھے لہذا جناح کا پاکستان وہی ہوسکتا ہے جس میں آئین وقانون کی حکمرانی ہو اور سول سپرمیسی ہو۔
لیکن ایک سوال جس کا جواب اسد رحیم خان کے پاس نہیں تھا کہ جناح نے مذہب کے نام پر ہندوستان سے علیحدہ ہوکر جو ریاست بنائی تھی وہ کیسے اور کس طرح جدید مساوی شہریت کی حامل جمہوری ریاست بن سکتی ہے۔ پاکستان کے قیام کی بنیادی وجہ ہی مذہب تھی اور اگر مذہب کو اپیل نہ کی جاتی تو پاکستان کے قیام کا کوئی جواز نہیں تھا۔لہذا گذشتہ پچھتر سالوں میں پاکستان تنزل کی جس راہ پر چل کر آج جہاں تک پہنچا ہے یہ جناح کی مذہبی سیاست ہی کی بدولت ہے اور موجودہ پاکستان ہی جناح کا پاکستان ہے۔اس سے مختلف ہو ہی نہیں ہوسکتا تھا۔
فیس بک کمینٹ