میرا یہ کالم کوئی محب وطن پاکستانی نہیں پڑھے گا کیونکہ اس سے اس کے اندر چھپے شیطانوں کو چوٹ لگے گی ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امت مسلمہ ہر جمعہ یا اتوار کو مظلوم فلسطینی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے جلسے جلوس نکال رہی ہے۔ لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے تربت، مکران سے شروع ہونے والے بلوچ یکجہتی کونسل کے لانگ مارچ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے کسی پاکستانی مسلمان کا ضمیر نہیں جاگتا۔
کل بلوچ لانگ مارچ بلوچستان، کےپی کے اور پنجاب سے تمام رکاوٹیں عبور کرتا ہوا اسلام آباد پہنچ گیا۔ قافلے کی منزل اسلام آباد پریس کلب تھی۔ قافلے کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کا مارچ پرامن تھا اور وہ پریس کلب کے علاوہ کہیں اور نہیں جا رہے تھے۔ اس کے باوجود اسلام آباد پولیس کی جانب سے قافلے کے شرکاء خواتین و حضرات اور بچوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت لانگ مارچ کے متعدد شرکاء کو رات گئے گرفتار کر لیا گیا ہے اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کا کہنا ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ ریاست ان کے قافلے میں شامل بلوچ مردوں کو لاپتا کر دے گی۔
بلوچ لانگ مارچ ستر سال سے پاکستانی ریاست کی طرف سے بلوچ قوم پر جاری مظالم(لاپتا افراد اور مسخ شدہ لاشوں) کے خلاف ہے۔
مجھ جیسے پنجابی سمجھتے ہیں کہ بلوچ لاپتا افراد جن کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں، ہندوستان اور دوسری پاکستان دشمن اقوام کے ایجنٹ ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے اور اس کا ذمہ دار صرف پاک فوج کو ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ ہمیں کہاجاتا ہے کہ بلوچوں پر مظالم پاکستانی فوج نہیں بلکہ بلوچ سردار کرتے ہیں۔ پنجاب میں بلوچوں کے بارے میں یہ تاثر قائم کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک خونخوار قوم ہیں اور بلوچستان میں آئے ہوئے پنجابیوں کو مار دیتے ہیں۔ ان غلط فہمیوں کی وجہ یہ ہے ہم اصل صورتحال سے واقف ہی نہیں ہیں۔
میں سال 2021 میں بلوچستان میں چھ ماہ کام کر چکا ہوں۔ مجھے وہاں جانے سے پہلے بہت سے دوستوں نے کہا کہ آپ وہاں غیرمحفوظ ہوں گے۔ لیکن وہاں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ بلوچ ایک امن پسند اور محبت کرنے والی قوم ہیں جو تشدد پر یقین نہیں رکھتی۔ میں قومی تعصب کے خلاف ہوں لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ بلوچ قوم کی علمی سطح پنجابیوں سے بہت بلند ہے۔ وہ پڑھنے لکھنے کے شوقین ہوتے ہیں اور فنون لطیفہ سے شغف رکھتے ہیں ۔پشتون اور پنجابی اقوام کے برعکس تمام تر ریاستی پروپیگنڈے کے باوجود وہ مذہبی انتہا پسندی سے دور اور بیزار ہیں۔ ان کی اکثریت ترقی پسند ہے اور وہ خواتین کی آزادی کے علمبردار بھی ہیں۔
بلوچ سرداروں کی اکثریت جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلوچ عوام پر ظلم کرتے ہیں دراصل پاکستانی فوج کے ایجنٹ ہیں اور ان سے فوائد حاصل کرتے ہیں.۔موجودہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اگرچہ بلوچ نہیں ہیں لیکن وہ بلوچستان سے ہیں اور ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جو فوج کے چمچے ہیں اور ہمہ وقت فوجی قیادت کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی چاپلوسی کے عوض انہیں بھاری انعام و اکرام اور عہدوں سے نوازا جاتا ہے۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جس نے مظلوم اقوام کے مسائل کو دنیا کے سامنے آشکارا کر دیا ہے۔ قومی تعصبات سے بالاتر ہو کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں بلوچ عوام اتنی بڑی تعداد میں اسلام آباد پہنچے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان افراد کی قیادت کوئی سردار، سابق وزیر یا سیاسی رہنما نہیں کر رہا۔ پی ٹی ایم کے علاوہ کسی بھی صوبائی یا مرکزی سیاسی جماعت نے بھی ابھی تک ان کے بارے میں کوئی موقف اختیار نہیں کیا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب عام محنت کش ہیں۔ یہ کسی بلوچ سردار کے تابع نہیں ہیں۔ ان کے مطالبات بہت سادہ ہیں۔ یہ لوگ بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ان کا کہنا ہے پاکستانی فوج کی جانب سے بلوچوں کی نسل کشی بند کی جائے اور لاپتا افراد کو بازیاب کیا جائے۔یہ لوگ کوئی امید لے کر اسلام آباد نہیں گئے بلکہ یہ اپنا پیغام اس پرزور احتجاج کے ذریعے پاکستانی قوم اور اقوام عالم تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کے مطالبات پر سوچنا چاہیے کہ بلوچ نسل کشی اور لاپتا افراد کے مسائل کی جڑ آخر کیا ہے اور ان کا حل کیا ہے۔ یہ لانگ مارچ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کتنا کامیاب رہے گا اس کا فیصلہ آنے والا وقت بہت جلد کرے گا۔
فیس بک کمینٹ

