بلوچ نسل کشی اور فیک انکاونٹرز کے خلاف اور بلوچ مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد جانے والے لانگ مارچ کے پرامن شرکا پرسوں رات ڈیرہ غازی خان پہنچے ۔ انتہائی دکھ اور شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان مظلوموں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا ، انہیں ملک دشمن غدار اور فتنہ و فساد تک کہا گیا اور یوں غازی خان میرانی بلوچ کے شہر کو کوفہ بنانے کی پوری کوشش کی گئی۔ بعض نام نہاد مقامی قوم پرست اس بات کا پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ ان لوگوں نے بلوچستان میں سرائیکی مزدوروں کو قتل کیا ہے ۔
یہ جو غیر مسلح پرامن خواتین بزرگ اور بچے شدید سرد اور خشک موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے اپنا دکھ دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے اتنے طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، کیا یہ قاتل ہو سکتے ہیں! کیا یہ militant ہو سکتے ہیں !
سویلین noncombatants چاہے وہ سرائیکی ہوں بلوچ ہوں سندھی ہوں یا پنجابی ان کا قتل انتہائی قابل مذمت اور ناقابلِ برداشت ہے ، لیکن ان مظلوموں پر الزام تراشی کرنا بھی قابل مذمت ہے ، بلوچستان میں اس وقت کئی ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں اور تنظیمیں آپریٹ کر رہی ہیں ، وہاں ٹی ٹی پی بھی ہے اور دا عش خراسان بھی ، ایک رئیسانی اور ایک مینگل گروپ کی پرائیویٹ ملیشیاز بھی ہیں ، انڈین را بھی ہے اور برادر پڑوسی ممالک کی ایجنسیاں بھی متحرک ہیں اور ہمارے دو بڑے دوستوں اور سرپرستوں عوامی جمہوریہ چین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے درمیان کشمکش بھی جاری ہے ۔۔۔ بغیر کسی ثبوت کے ان مظلوموں پر الزام عائد کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟
کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں کسی قابل ذکر شخصیت نے مزدوروں پر حملوں کی مذمت نہیں کی تو جناب بلوچستان میں جتنے قابل ذکر دانشور تھے انہیں مار دیا گیا ہے باقی رہ گئے ہیں سردار، سرداروں کی اکثریت سرکار کی حامی ہے انہیں ہوس اقتدار اور ہوس زر نے ویسے ہی اندھا کیا ہوا ہے انہیں اور کچھ نہیں دکھائی دیتا، چند ایک نیشنلسٹ یا قوم پرست سردار ہیں انہیں سرکار اور مسلح مزاحمت کاروں دونوں طرف سے مار پڑتی ہے لہذا وہ کھل کر کسی بھی اشو پر بات نہیں کرتے ۔ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں ہر آٹھ گھنٹے میں ایک نوجوان غائب ہوتا ہے جو عموماً ٹین ایجر ہوتا ہے ، یا کسی کالج اور یونیورسٹی کا طالب علم ہوتا ہے ، یوں بلوچوں کی ایک پوری باشعور اور تعلیم یافتہ نسل معدوم کی جا رہی ہے ۔ مکران میں گوادر حقوق تحریک اور لاپتہ افراد کے ورثا کی تحریک جسے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ماما قدیر لیڈ کر رہے ہیں یہ پرامن تحریکیں ہیں ، غیر مسلح جدوجہد کے قائل ہیں، لیکن افسوس ہے کہ پرامن جدوجہد کے راستے بند کیے جا رہے ہیں ۔
ڈیرہ غازی خان اور راجنپور بلوچ اکثریتی علاقے ہیں یہاں کے لوگوں کو اپنے مظلوم بلوچ بھائیوں کی پرامن جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے ، جو حمایت نہیں کر سکتے وہ کم از کم خاموش تو رہیں ان کے زخموں پر نمک تو نہ چھڑکیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہاں کے بلوچ سردار اور تمندار اس قافلے میں شامل اپنی بلوچ بیٹیوں کا استقبال کرتے اور انہیں چادریں پیش کرتے لیکن ہوا یہ کہ بعض سرداروں کے حواری درباری ان کے خلاف زبان درازی میں مشغول ہیں۔
فیس بک کمینٹ