بلوچی اکیڈمی بلوچی زبان و ادب کی ترویج کا سب سے بڑا قومی ادارہ ہے۔ اس کی بنیادی 1960ء کی دہائی میں پڑی۔ بلوچی کے نامور ادیب، شاعر، لکھاری اس ادارے سے وابستہ رہے ہیں۔ گو کہ بیس برس قبل آنے والی انتظامی تبدیلی کے نتیجے میں یہ قومی ادارہ بعض اختلافات کی زد میں بھی رہا۔ اس سے جزوی اختلاف آج بھی ہیں، مگر حکومتِ وقت نے جو نقب آج اس ادارے میں لگائی ہے، وہ مجموعی طور پر بلوچ، بلوچستان اور بلوچی کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے بنا کسی اگر مگر، چونکہ چنانچہ کے اس کی بھرپور مذمت ہی بنتی ہے۔ اور یہ کام وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اکیڈمی کی سالانہ گرانٹ ایک کروڑ روپے میں سے 25 لاکھ روپے کاٹ لیے ہیں۔ یہ رقم مبینہ طور پر ” بلوچی ادبی اکیڈمی “ نامی ایک ادارے کو دی گئی ہے۔ جس کے سربراہ عبدالواحد بندیگ ہیں۔ جن کے کریڈٹ پر آزاد جمالدینی کے رسالہ ” بلوچی“ پہ قبضہ کرنا اور اس کے نام پہ دنیا بھر کے بلوچوں سے روپیہ بٹورنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ بندیگ صاحب سینئر بزرگ ہیں لیکن انہیں ہمیشہ رعونت بھرا انسان ہی پایا۔ کبھی کسی کی اچھائی نہ سنی۔ انہیں بلوچی اکیڈمی کی اسٹیبلشمنٹ نے ہی پالا پوسا۔ یہ مہرے کی طرح استعمال ہونے کے بیس برس بعد جب مالی بے ضابطگیوں کے الزام میں وہاں سے نکالے گئے اور انہیں محفوظ راستہ دیا گیا تو انہوں نے فوری نقب ” بلوچی ادبی اکیڈمی“ قائم کر کے لگائی۔ اور اب سرکار کا مہرہ بن کر اس قومی ادارے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اکیڈمی کے کرتا دھرتا جان محمد دشتی صاحب ہیں۔ جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق نہایت سخت گیر رویہ رکھتے ہیں۔ سخت قسم کے بلوچ اور بلوچی پرست ہیں۔ اپنے رویوں میں بھی نہایت سخت گیر مشہور ہیں۔ ایک روایتی بلوچ کی طرح وہ جھکنے پر کٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی اسی سخت گیری کے باعث 2009 ء میں جان لیوا قاتلانہ حملہ سہہ چکے۔ اب دس برس بعد حالیہ انتخابات میں اسی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم مہرہ زبیدہ جلال کے سامنے کھڑے ہوئے اور اخلاقاً انہیں شکست سے بھی دوچار کیا مگر ٹھپے بازی بہرحال جیت گئی۔ اس جعلی ٹھپے بازی کے خلاف انہوں نے کیس دائر کر رکھا ہے۔بندیگ، دشتی صاحب کی سرپرستی کے بنا کچھ نہیں۔ اس لیے یہ دستِ شفقت نہ رہا تو وہ سرکار کی گود میں جا گرے۔ سرکار نے ہمیشہ کی طرح بلوچ کو بلوچ کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی کے تحت انہیں اپنا مہرہ بنا کر دشتی صاحب سے حساب برابر کرنے کے لیے اکیڈمی کو مالی ضرب لگائی اور ان کی سالانہ گرانٹ کے 25 لاکھ روپے کاٹ کر بندیگ کی جھولی میں ڈال دیے۔اس کے خلاف بولنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ محض ایک ادارے کے مالی معاملات کا معاملہ نہیں، یہ ایک قومی ادارے کی بقا کی بھی بات ہے۔ دشتی صاحب سے لاکھ اختلاف سہی، اپنی ذات میں ایک اسٹیبلمشنٹ ہونے کے باوجود اس وقت وہ ایک مہا سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں، اس لیے کھل کر ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ ساتھ ہی ڈمی اور کاغذی تنظیموں کو عوام کے ٹیکسز سے لاکھوں روپے سے نوازنے کے اقربا پروری والے رویے کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔بلوچستان سمیت پاکستان بھر کے ادیبوں اور ادبی تنظیموں کو اس معاملے پر یکجا ہونا چاہیے، یک آواز ہونا چاہیے۔ ہم پہلے ہی اداروں کی قلت کے مارے ہیں، پچاس برسوں میں مشکل سے ایک قومی ادارہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا ہے، اس میں دراڑ کا مطلب ہمارے قومی وجود میں دراڑ پڑنا ہے۔
فیس بک کمینٹ