جاڑے کا موسم شروع ہو چکا ہے، پتے درختوں سے گرنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ بھی چُپ چاپ۔۔۔ بڑا عجیب موسم ہے، سردیوں کی آمد آمد ہے مگر حبس بڑھ رہا ہے، سورج کی تپش کم اور روشنی مدھم ہو رہی ہے، اداسیوں کا یہ موسم بہت تکلیف دہ ہے۔۔۔ اور یوں بھی اور زیادہ اس لیے کہ یہ ہے چُپ کا موسم۔
یہ اکتوبر 2007 تھا۔ اسلام آباد میں موسم کی تبدیلی کے آثار نمایاں ہو چکے تھے، چُپ چاپ سردیاں آرہی تھیں، درخت بہار میں رونق بخشنے والے پتوں سے جان چھڑا رہے تھے۔ سیاسی موسم بھی تبدیل ہو رہا تھا، این آر او کی بازگشت سُنائی دے رہی تھی، ملک بدر قیادت کو اپنے ہی ملک میں واپس آنے کے لئے چند یقین دہانیاں چاہییں تھیں، جسے زمانہ ڈیل کا نام دے رہا تھا۔ بہرکیف، اسی دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے اٹھارہ اکتوبر کو ملک واپسی کا اعلان کر دیا، بی بی کا سواگت سو سے زائد لاشوں سے ہوا۔اسی دوران جنرل مشرف کے دو عہدوں اور صدارتی انتخاب میں اہلیت سے متعلق عدالت عظمیٰ سماعتیں کر رہی تھی۔ مشرف کو انتخاب لڑنے کی اجازت میں مشکلات تھیں اور عدالتوں پر شدید دباؤ۔ تین نومبر کو ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا۔اس شام بھی اسلام آباد میں مہیب خاموشی تھی۔ ہم سب سپریم کورٹ کے باہر موجود تھے۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا ایمرجنسی کے خاتمے کا فیصلہ بھی سُن چکا تھا۔ ہم ایک بار پھر ملک میں وہی تماشا دیکھ رہے تھے جب ایک آمر ملک کے آئین کے ساتھ دوسری بار کھلواڑ کر رہا تھا۔ اعلیٰ ججوں کو برطرف کر دیا گیا اور پی سی او عدالتیں مقرر کر دی گئیں۔تین نومبر سے قبل ہی یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ اگر ایمرجنسی لگی تو چند ‘شرپسند’ اینکرز پر پابندیاں عائد ہوں گی اور تین نومبر کی رات ہی مجھ سمیت پانچ اینکرز پر جن میں حامد میر، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، کاشف عباسی اور ڈاکٹر شاہد مسعود شامل تھے، ٹیلیویژن پر ہر قسم کی اپیئرنس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ الزام تھا کہ ججوں کی بحالی کی تحریک میں ہم نے رائے عامہ برسراقتدار جنرل مشرف کی حکومت کے خلاف کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس اقدام کے علاوہ پاکستان کے دو بڑے چینلز کی نشریات روک دی گئیں اوربعض اخبارات پر بھی اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی۔ جنرل مشرف چاہتے تھے کہ عام انتخابات سے قبل ایسا ماحول بنا دیا جائے جو سراسر اُن کو فائدہ دے۔ مرضی کی رائے عامہ اور من پسند حکومت۔اس ماحول میں پاکستان یونین آف جرنلسٹ نے فیصلہ کیا کہ جنرل مشرف کو آزادی اظہار پر پابندی نہیں لگانے دیں گے، مزاحمت کریں گے اور آمریت کا راستہ روکیں گے۔ ایسے میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل المدتی احتجاجی کیمپ میلوڈی میں واقع ایک کمرے کے عارضی پریس کلب کے سامنے لگا دیا گیا۔ہم اس پریس کلب کے باہر صبح سے لے کر شام تک موجود رہتے، یہیں سڑک پر ہم اینکرز جن کے پروگراموں پر پابندی عائد تھی، عوام کے سامنے پروگرام پیش کرتے، اور لوگ دور دور سے ہمیں دیکھنے اور ملنے کے لیے آتے۔یہیں فراز صاحب ،منہاج برنا اور افضل خان مرحوم جیسے سینیئر اور آمریتوں سے ٹکرانے والے صحافی، سول سوسائٹی کے اراکین، طلباء اور وکلا تشریف لاتے اور میں ان احتجاجی مظاہروں میں احمد فراز صاحب کی مشہور نظم ‘محاصرہ’ پڑھ کر انقلابی ماحول بنانے کی کوشش کرتی۔محترمہ بینظیر بھٹو بھی ایک مرتبہ آج ٹی وی کے سامنے ہمارے مظاہرے میں شریک ہوئیں جہاں اُنھوں نے آزاد میڈیا کے لیے جدوجہد میں بھرپور تعاون کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ اُس کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک شانہ بشانہ ساتھ رہیں۔ یہاں تک کہ اُنھیں 27 دسمبر کو ہلاک کر دیا گیا۔ اُس دن جب وہ اس دنیا سے گئیں اور ملک میں غم اور غصے کا عالم تھا سمجھ میں آیا کہ میڈیا پر پابندیاں کیوں عائد کی گئی تھیں۔جنرل مشرف کا دور ختم ہوا تو یہ سمجھ لیا گیا کہ اب میڈیا کو پابندی سے نہیں آزادی دے کر ختم کرنا ہو گا، ان آوازوں کو گولی سے نہیں گالی سے بند کرنا ہو گا۔ اور ان کو منظرنامے سے ہٹا کر نہیں ان کی ساکھ کو ختم کرنے کی سازش کر نا ہو گی۔یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سب سے پہلے صحافیوں کی یونینز کو تقسیم کیا گیا، آمر کے خلاف ایک مٹھی کی طرح متحد صحافی تنظیموں میں دراڑیں ڈالی گئیں، مفادات کے نام پر تنازعات کو ہوا دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم شدہ صحافیوں کے ہاتھ سے معاملات پھسل کر مالکان کے ہاتھ آگئے اور دھیرے دھیرے رہی سہی ساکھ مفادات کی نذر ہو گئی۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔۔۔ پہلے سینسر شپ اور پھر سیلف سینسر شپ۔ اب کسی کو نہ پابندی لگانے کی ضرورت اور نہ ہی آواز بند کرنے کا تردد۔۔ اب ایک نہیں کئی ایک احتجاجی کیمپ لگیں گے۔ اب بھی وقت ہے اِس موسم کی چُپ کو توڑا جائے، بولا جائے، ایک آواز اور ایک زُبان ہو کر کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ