وہ ٹیم جس میں ایک سے بڑھ کر ایک سپر سٹار ہوا کرتا تھا،آج اوسط درجے کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔وہ ٹیم جس کے فاسٹ باؤلرز خوف کی علامت ہوا کرتے تھے،آج میڈیم پیسرز کے ہاتھوں میں ہے۔وہ ٹیم جس کے باؤلرز آخری دس اوورز میں میچ کا نقشہ بدل دیتے تھے ،آج آخری دس اوورز میں پندرہ کی ایوریج سے سکور بناتی ہے،وہ ٹیم یارکرز جس کے باؤلرز کا ہتھیار تھے،آج پورے میچ میں ایک بھی یارکر نظر نہیں آتا،وہ ٹیم جس کی ٹیل آرڈر میں وسیم اکرم،عبدالرزاق ،معین خان،شاہد آفریدی ،اظہر محمود جیسے بڑے نام تھے ،آج پانچ آؤٹ ہونے کے بعد بیس رنز سکور نہیں کر پاتی،وہ ٹیم جس میں اظہر علی جیسے کھلاڑی کی جگہ تک نہیں بنتی تھی،آج اظہر علی اس ٹیم کا کپتان ہے۔وہ ٹیم جس کے پاس گریٹ عبدالقادر،ثقلین مشتاق، سعید اجمل جیسے جادوئی سپنرز تھے،آج پورے ملک میں ایک بھی معیاری سپنر نہیں ۔قصوروار کون ہے؟سسٹم یا اتھارٹیز؟حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ماڈرن ون ڈے گیم میں ابھی خاصا پیچھے ہے۔ کوچ مکی آرتھر بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ون ڈے ٹیم ابھی تک 2002ء والی کرکٹ کھیل رہی ہے۔
پاکستان ون ڈے کرکٹ کے زوال میں ایک بڑی وجہ یواے ای کرکٹ ہے جس نے پاکستان کی کرکٹ تباہ کر دی ہے،مردہ وکٹوں پر جیت کر ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے بیٹھے ہیں اور اس طوفان سے واقف نہیں جو ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔بنگلہ دیش نے ہمیں کلین سوئپ کیا تو وہ دن ہماری کرکٹ کا جنازہ اٹھنے جیسا تھا،جنازہ تو اسی دن اٹھ گیا تھا جب لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا اور اس کے بعد حکومتِ وقت نے کرکٹ کی بحالی میں کبھی دلچسپی نہ لی ورنہ بھلا حکومتوں کے لئے کیا مشکل تھا کہ وہ ٹیموں کو صدرِ مملکت والی سکیورٹی کا وعدہ کرتی تو ٹیموں نے آ ہی جانا تھا مگر پاکستان میں تو لگتا ہے یہ صرف کرکٹ بورڈ کا مسئلہ ہے جس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں،پھر کرکٹ نے یتیم ہو ہی جانا تھا۔کرکٹ اداروں سے مستقل نوکریاں ختم ہوئیں،کسی حکومت نے توجہ نہ دی،تو پھر کرکٹ یتیم کیسے نہ ہوتی۔پاکستان کرکٹ کی ناکامی کی ایک اور وجہ اکمل برادران ہیں،کامران اکمل نے کیچز گرا کر،ہاتھ سے رن آؤٹ چھوڑ کر ہمیں جیتے میچز ہروائے اور عمر اکمل جسے ایک دور میں روہت شرما اور کوہلی قرار دیا گیا،محض پندرہ بیس رنز کا کھلاڑی بن کر رہ گیا،ہر وہ میچ جس کی ذمہ داری عمر اکمل پر پڑی،وہ پاکستان ہار گیا،اس کھلاڑی نے آج تک ہمیں میچ فنش کر کے نہیں دیا،جانے اس سے جان بھی کیوں نہیں چھڑوائی جاتی،اسے ڈراپ کیا جاتا ہے،دوبارہ پھر ٹیم میں شامل کروا دیا جاتا ہے،ٹیم میں جب بھی محمد حفیظ اور شعیب اکمل ہوں گے،وہ کپتانی کی دوڑ کی سیاست کو زندہ کریں گے اور ٹیم ہارے گی،شعیب ملک ہی تھے جو انگلینڈ میں میچ بنا کر ایسے موقع پر میچ ہروا گئے جہاں میچ ہارنا بنتا نہیں تھا،حفیظ اور ملک اپنے سکور کرتے ہیں اور آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ہم نے نہ تو آل راؤنڈرز تلاش کئے،جو ملے بھی تو ان کو گروم نہیں کیا،ملتان کے راؤ عامر یامین نے ہر چانس پر اچھا پرفارم کیا،آج وہ کہاں ہے؟اسے بلا وجہ کیوں ڈراپ کیا گیا؟کیا بلاول بھٹی حسن علی سے بھی بُرا تھا،بلاول کے پاس یارکرز تھے،وہ سپیڈ بھی رکھتا تھا اور بیٹنگ بھی کر سکتا تھا،آج وہ کہاں ہے؟؟پاکستان کی فیلڈنگ بچوں جیسی ہے،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ہم فیلڈنگ کی وجہ سے ہارے،بھاری بھرکم معاوضوں پر رکھے گئے فیلٖڈنگ کوچ کہاں ہیں؟انگلینڈ کے خلاف ہم نے سکور کا ورلڈ ریکارڈ بنوا دیا،آخر وہاب ریاض ایک میچ کے چند اوورز کی پرفارمنس کا صلہ کب تک وصول کریں گے؟کب تک دفاعی سوچ کے تحت کرکٹ چل سکتی ہے جب کہ آج 350کا ہدف بھی پورا ہو رہا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں ایک دفاعی سوچ اور دفاعی حکمت عملی کو ترجیح دینے والے کپتان کی قیادت میں قومی ٹیم حد سے زیادہ محتاط ہو چکی ہے،جبکہ جدید دور کی کرکٹ جارحیت مانگتی ہے، لہٰذا قومی ٹیم کو نا کامیوں کی دلدل سے نکالنے کے لئے جارحانہ، مگر خود مختار کپتان کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کی کرکٹ کو بچانے کے لئے کیا کوئی تحریک کرکٹ نہیں چلائی جاسکتی۔
اظہر علی کو اس لئے کپتان بنایا گیا کہ وہ سمجھدار اور شریف انسان ہے بھلا کوئی پوچھے کہ اظہر علی کی صلاحتیں دیکھنی چاہئے تھیں یا عادات وخصائل دیکھے جا رہے تھے وہ اپنی پوری عمر بھی لگے رہیں تو کپتانی ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ وقار یونس اور مصباح الحق نے اپنے فائد ے کے لئے بورڈ کو اظہر علی کو کپتان بنانے کا دانشمندانہ مشورہ دیا۔ اس بدنیتی اور اپنے مفاد کو مقدم رکھنے والے فیصلے نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی ایک المناک رسوائی کو جنم دیا۔ پاکستان ٹیم جو سولہ برس بنگلہ دیش سے ایک میچ نہ ہاری تھی اب لگاتار تین ون ڈے میچز اور ایک ٹی 20ہار چکی ہے۔
ہارون الرشید اور ان جیسے کچھ لوگ جب سے پیدا ہوئے ہیں ان کو پاکستان کرکٹ بورڈ میں کسی نہ کسی عہدے پر دیکھا ہے۔ بظاہر تو نفیس اور سلجھے ہوئے ہیں، مگرمجال ہے کہ کوئی ایسا کام کیا ہو جس کو حوالہ بنا کر ان کی تعریف کی جا سکے۔ بطور سلیکٹر ،بطور چیف سلیکٹر بطور گیم ڈویلپمنٹ منیجر بطور منیجر اور بطور کوچ ہر عہدے میں انہوں نے ایسے چن چڑھائے ہیں کہ حیرت ہوئی ہے کہ انہیں باربار کیوں موقع دیا جاتا رہاہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ انضمام الحق کیا کریں گے،ٹیم میں اس وقت سخت آپریشن کی ضرورت ہے،ہمیں چالیس رنز والے کھلاڑی نہیں بلکہ میچ فنشر درکار ہیں اور وہ لڑکے نئے ٹیلنٹ سے ملیں گے ورنہ جنازہ تو نکل چکا ہے،اب صرف تدفین رہتی ہے۔
فیس بک کمینٹ