کراچی کا صرافہ بازار کسی زمانے میں ’’کامل گلی‘‘ میں ہوا کرتاتھا۔ اسی صرافہ بازار میں پاکستان کے نامور بزنس مین سیٹھ عابد کے والد کی دکان بھی ہوا کرتی تھی۔سیٹھ عابد (شیخ عابد حسین) کے والد کی بابت ستار بھائی نے مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے ’’امام مہدی‘‘ ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ وہ صرافہ بازار میں ایک ہاتھ میں قینچی لے کر گھوما کرتے تھے اور جہاں کسی شخص کے چہرے پر ڈاڑھی اور مونچھیں دیکھتے وہیں قینچی سے اس کی مونچھیں تراش دیتے کیونکہ یہ سنت رسولﷺ کے عین مطابق تھا۔ اللہ نے انھیں چھے بیٹے عطا کیے جن میں سے آج کتنے زندہ ہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان چھے بیٹوں میں سے ہر ایک ’’ارب پتی‘‘ تو ضرور ہے۔ ایک اور بات جو ان بھائیوں میں مشترک تھی وہ یہ ہے کہ سب کے سب حاجی تھے۔ان بھائیوں میں شیخ عابد حسین کے پاس سب سے زیادہ دولت تھی۔ شیخ عابد حسین کے بارے میں ستار بھائی نے جو کچھ مجھے بتایا اس کے بعد مجھے ان کے بارے میں جاننے کی مزید خواہش پیدا ہوتی چلی گئی۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اپنے سارے بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ ہوشیار، ذہین اور بات کی تہ تک فوراً پہنچنے والے ہیں۔ ان کا دماغ ایک کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ان کی تصویر آج تک کسی نے نہیں دیکھی، پبلک ریلیشنگ کا انھیں سرے سے کوئی شوق نہیں، اللہ نے انھیں ایک بیٹی یعنی نصرت شاہین اور تین بیٹوں سے نوازا ہے۔ ان کے دونوں چھوٹے بیٹے گونگے بہرے اور Retarded ہیں اور امریکا میں کسی بورڈنگ ہاؤ س میں رہتے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے شادی شدہ بیٹے ایاز محمود کو لاہور میں کچھ عرصہ قبل قتل کر دیا گیا ہے۔ جس کے خلاف سیٹھ عابد نے حیرت ناک طور پر کوئی قانونی اقدام نہیں کیا۔ ان کا یہ مرحوم بیٹا حافظ قرآن تھا اور خالقدینا ہال کراچی میں نماز تراویح پڑھایا کرتا تھا۔
بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جب امریکی حکومت نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ درآمد کرنے پر سخت پابندی عائد کر رکھی تو یہ سیٹھ عابد ہی تھے جنھوں نے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ بحری راستے سے پاکستان پہنچایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس زمانے میں پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ انھوں نے 5 کروڑ روپے پیپلز پارٹی کے لیے بطور فنڈ سیٹھ عابد سے طلب کر لیے۔ انھوں نے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ بھٹو صاحب کی ہدایت پر سیٹھ عابد کی گرفتاری کے لیے ہر جگہ چھاپے مارے جانے لگے لیکن وہ موجود ہوتے ہوئے بھی ہاتھ نہ لگ سکے۔اسی زمانے میں مجھے اپنی ماموں زاد بہن کے گھر جو شہید ملت روڈ کی متوازی سڑک ’’سندھ ٹریڈرز سوسائٹی‘‘ میں واقع تھا، جانے کا اتفاق ہوا۔ گھر سے باہر نکل کر میں نے دیکھا کہ ایک بڑے سے مکان کے باہر فوجی ٹرک کھڑے ہیں، وہ وہاں کسی کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ سیٹھ عابد کی اکلوتی بیٹی نصرت شاہین کی گرفتاری کے لیے آئے ہیں۔ فوجی سیٹھ عابد کی صاحبزادی کو ٹرک میں بٹھا کر لے گئے۔ جب سیٹھ عابد کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے لندن میں زیر تعلیم بے نظیر بھٹو کو اغوا کرا لیا۔ اب سیٹھ عابد کی بیٹی بھٹو کی قید میں اور بھٹو کی دختر سیٹھ عابد کی تحویل میں، بہرکیف دونوں میں سمجھوتہ ہو گیا اور نصرت شاہین اور بے نظیر بھٹو رہا کر دی گئیں۔یہ بات پاکستان کے عوام سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی دختر زین ضیاء بھی ایک Retarded بچی تھی۔ اسے بھارتی اداکار شتروگھن سنہا بے حد پسند تھے۔ لہٰذا جنرل ضیاء الحق نے اپنے گھر کے دروازے ان کے لیے کھو ل رکھے تھے اور وہ جنرل ضیاکے ہاں ہی قیام کرتے تھے۔
ممکن ہے آپ کو یہ جان کر تعجب اور حیرت ہو کہ بھٹو کے قصوری قتل میں سلطانی گواہ بننے والا شخص ’’مسعود محمود‘‘ بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی فیڈرل سیکیورٹی فورس کا سربراہ اور سیٹھ عابد کا حقیقی برادر نسبتی (سالا) تھا۔ بھٹو کے مقدمے میں گواہی دینے کے بعد وہ امریکا چلا گیا تھا۔ وہیں اس نے اپنی زندگی کے آخری سانس لیے۔ادھر سیٹھ عابد کے دونوں بیٹے بھی جو امریکا میں مقیم ہیں Retarded تھے۔ اِن دونوں کے درمیان گہری دوستی کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی۔ کراچی میں ایک ادارہ ہے ’’دیوا اکیڈیمی‘‘ جو اس قسم کے Disabled بچوں کو امداد فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کی منعقدہ ایک تقریب میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق، سیٹھ عابد کے ہمراہ شریک تھے۔ تقریب کے منتظمین نے کوکا کولا سے مہمانوں کی تواضع کی، کوکاکولا پینے کے دوران اس کے چند قطرے سیٹھ عابد کے بش کوٹ (واضح رہے کہ پتلون اور بش کوٹ سیٹھ عابد کا پسندیدہ لباس ہے) پر گر گئے۔ صدر مملکت ضیاء الحق نے جھٹ اپنی جیب سے رومال نکالا اور ان دھبوں کو صاف کرنے میں مشغول ہو گئے۔
سیٹھ عابد اور قاسم بھٹی خلیج کے کسی ملک سے سونا اسمگل کر کے پاکستان لا رہے تھے کہ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ دونوں نے مل کر بحیرۂ عرب میں اس اسمگل شدہ سونے کو چھپا دیا۔ قاسم بھٹی کی وفات کے برسوں بعد سیٹھ عابد نے سپریم کورٹ سے اس اسمگل شدہ سونے کا مقدمہ جیت لیااور یہ سارا سونا اس کے قبضے میں آ گیا۔یاد رہے کہ اسی قاسم بھٹی نے کراچی کے ایک معروف ہوٹل فریڈرکس کیفے ٹیریا میں صدر سکندر مرزا کی اہلیہ ناہید سکندر مرزا کو سونے کا ہار بھی پہنایا تھا۔ سونے کے بعد سیٹھ عابد نے غیر ملکی کرنسی کی اسمگلنگ کا کام شروع کیا تھا۔ آج کل وہ بالخصوص کراچی میں پراپرٹی کے کام سے وابستہ ہیں۔ صدر میں واقع ریجنٹ پلازہ ہوٹل کے مالک فیروز الدین باویجہ ان کے گہرے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں اور سیٹھ عابد اپنی شامیں اسی ہوٹل میں گزارتے ہیں۔ سیٹھ عابد نے اسمگلنگ کے حق میں کئی فتاویٰ لے رکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ قانونی طور پر ایک جائزعمل ہے یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ (اسے جرم بنا دیا گیا ہے) واضح رہے کہ سیٹھ عابد کے Carriers بھی آج لکھ پتی اور کروڑ پتی بن چکے ہیں۔
شیخ عابد حسین کا آبائی تعلق پنجاب کے مردم خیز ضلع ’قصور‘ سے ہے جہاں کے بابا بلھے شاہ، ملکۂ ترنم نورجہاں ،میتھی اور کھُسّے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ شیخ عابد نے لاہور میں ذہنی معذوروں کے لیے ’’حمزہ فاؤ نڈیشن‘‘ اور قصور میں ایک ہسپتال بھی بنوا رکھا ہے جہاں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ وہ اردو اور پنجابی کے علاوہ میمنی بولی پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں۔ کسی زمانے میں آئی آئی چندریگر روڈ پرواقع عمارت یونی ٹاورز میں ان کا دفتر واقع تھا۔
1959 ء کا زمانہ تھا۔ کرسمس کے موقع پر مجھے اپنے چند احباب کے ہمراہ ایلفنسٹن اسٹریٹ (آج کی زیب النساء اسٹریٹ) کے کونے پر واقع کشمیر آرٹ ایمپوریم کی بالائی منزل پر جانے کا اتفاق ہوا جو ایکسیلشیئر ہوٹل کے نام سے معروف تھی۔ اس کا مالک ’’جمال‘‘ تھا جسے میں کراچی کا پہلا ’’پلے بوائے‘‘ کہتا ہوں۔ ماضی کی مشہور فلمی ہیروئن اور اپنے زمانے کی نہایت خوبرو اور حسین اداکارہ اسی جمال کی داشتہ رہ چکی ہے اور اس کی ایک بیٹی کا باپ بھی وہی جمال ہے۔نجانے کیا ہوا کہ جمال نے پورا ایکسیلشیئر ہوٹل بینک آف بہاولپور کے پاس فقط ڈھائی لاکھ روپوں میں رہن رکھوا دیا۔ اس زمانے کے ڈھائی لاکھ روپے آج کے کم از کم ڈھائی کروڑ روپوں سے کم ہرگز نہ ہوں گے۔ اتفاق دیکھیے کہ بینک آف بہاولپور جمال کے اس ہوٹل کی نچلی منزل پر واقع تھا۔ ڈھائی لاکھ روپوں میں اپنے ہوٹل کو گروی رکھ کر جمال سول ہسپتال میں غالباً اپنڈکس کے آپریشن کی غرض سے داخل ہوا اور اچانک پراسرار طور پر انتقال کر گیا۔ جمال کے ہوٹل میں مصر کی مشہوررقاصہ سامعہ جمال بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی تھیں۔سول ہسپتال میں ایک معمولی سی سرجری کے دوران جمال کے انتقال کے بعد اس کا ہوٹل ایکسیلسئر آج تک سائیں سائیں کر رہا ہے۔ ہوٹل کا بورڈ بھی آج تک اسی طرح آویزاں ہے۔ میری ملاقات جمال کے حقیقی بھانجے سے بھی ہو چکی ہے جو کسی زمانے میں PIDC ہاؤ س کے بالمقابل واقع نائٹ کلب ’’میرامار‘‘ (Miramar) چلایا کرتا تھا جو ایک سبزہ زار پر واقع تھا۔ ہوٹل ا یکسیلشیئر آج تک جوں کا توں موجود ہے لیکن اجاڑ، ویران اور غیر آباد۔ اس واقع کو 52 برس گزر چکے ہیں۔ شاید ہوٹل آج بھی اپنے مالک کا منتظر ہے۔
(یہ مضمون اردو ڈائجسٹ سے لیا گیا ہے)
فیس بک کمینٹ