نیب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا آج صبح تیسری بار القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ نہیں سنا سکے۔ جج نے جیل میں قائم کی گئی عدالت میں بتایا کہ فیصلہ تحریری طور پر دستخط شدہ حالت میں ان کے پاس موجود ہے لیکن ملزمان یا ان کے وکلا عدالت میں نہیں آئے۔ اس لیے اب یہ فیصلہ 17 جنوری کو سنایا جائے گا۔
اس سے پہلے 23 دسمبر اور6 جنوری کو بھی مختلف وجوہ کی بنا پر فیصلہ کا اعلان نہیں ہوسکا تھا۔ اس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کا مؤقف تھا کہ جان بوجھ فیصلہ مؤخر کیا جارہا ہے تاکہ عمران خان پر سیاسی دباؤ میں اضافہ کیا جائے۔ آج عدالتی فیصلہ مؤخر ہونے کے فوری بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ فیصلہ کے اعلان میں تاخیر کا کسی سیاسی ڈیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کی اور نہ ہی وہ ایسا ارادہ رکھتی ہے۔ البتہ ان کا دعویٰ تھا کہ اس مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج عمران خان کے بارے میں متعصب ہیں۔ اور وہ پہلے سے جانتے ہیں کہ کیا فیصلہ آئے گا تاہم اس کی تاخیر کا سبب جج ناصر جاوید کو ہی معلوم ہوگا۔ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
بیرسٹر گوہر علی کی باتوں سے اختلاف کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن انہیں خود بھی اپنے اس عذر کی وضاحت کرنی چاہئے کہ اگر تحریک انصاف اور عمران خان عدالتی فیصلے کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے تو پھر عمران خان اور بشریٰ بی بی نے آج اس فیصلہ کو ایک بار پھر مؤخر کرنے میں کیوں کردار ادا کیا۔ عدالت نے بتایا ہے کہ ملزمان کے وکلا کو فیصلہ کے اعلان کے بارے میں بتا دیا گیا تھا ۔ عدالتی کارروائی صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع کردی گئی تھی لیکن بشریٰ بی بی اور عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ حتیٰ کی ان کے وکلا بھی حاضر نہیں تھے۔ اسی عذر کی وجہ سے فیصلہ مؤخر کیا گیا۔ یہ وضاحت اگرچہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ کیوں کہ اعلان کے مطابق فیصلہ ساڑھے دس بجے سنایا جانا تھا لیکن جج صاحب کا کہنا تھا کہ وہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ہی عدالت پہنچ گئے تھے۔ کوئی جج کس وقت عدالت پہنچتا ہے ، اس کا کسی مقدمہ یا اس میں ملوث لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اگر وہ مقررہ وقت پر اپنے ہی اعلان کے مطابق فیصلہ سنانے میں ناکام رہتا ہے تو اس کی وضاحت ضرور پیش ہونی چاہئے۔
آج دیکھا گیا کہ جج ناصر جاوید رانا تو عدالت میں موجود ہی تھے لیکن تحریک انصاف کے نمایاں لیڈر اور بہنیں بھی عدالت کارروائی سننے کے لیے جیل پہنچ گئی تھیں۔ البتہ جن لوگوں کا وہاں ہونا ضروری تھا ، وہ ساڑھے دس بجے بھی عدالت نہیں پہنچے تھے جس کے بعد فیصلہ مؤخر کرنے کا اعلان ہؤا۔ یعنی نہ تو بشریٰ بی بی اپنے گھر سے عدالت پہنچیں اور نہ ہی عمران خان جو اڈیالہ جیل میں ہی مقید ہیں، عدالت میں پیش ہونے کے لیے آئے۔ جج ناصر جاوید کا دعویٰ ہے کہ انہیں دو بار عدالت میں حاضر ہونے کا پیغام بھیجا گیا لیکن انہوں نے آنے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ خود عمران خان یا بشریٰ بی بی ہی بتا سکتی ہیں کہ جب وہ ’بے چینی‘ سے اس فیصلہ کا انتظار کررہے تھے بلکہ فیصلہ سامنے نہ آنے کا تعلق بھی دباؤ کے ہتھکنڈوں اور حکومتی سازش سے جوڑ رہے تھے، توآج فیصلہ سننے کے لیے عدالت کیوں نہیں پہنچے۔ کیا کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کی وجہ سے ایسا کیا گیا تھا؟ اس کی وضاحت عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف سے سامنے آنی چاہئے۔ کیوں کہ اس بار خود ملزمان ہی کی وجہ سے مقدمہ کا فیصلہ نہیں سنایا گیا۔
یہ وضاحت ماضی قریب کی عدالتی کارروائی اور طریقہ کار پر لگائے گئے الزامات کی وجہ سے بھی کرنا ضروری ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کسی طرف سے کوئی بیان سامنے آنے سے پہلے ہی ایک تو بیرسٹر گوہر علی نے دعویٰ کیا کہ ڈیل کا الزام غلط ہے۔ یہ الزام یقیناً غلط ہوگا لیکن انہیں یہ ضرور بتانا چاہئے تھا کہ اس مقدمہ میں ڈیل کرنے کا الزام عائد کس نے کیا تھا؟ تاکہ متعلقہ شخص سے پوچھا جاسکتا کہ وہ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کررہا ہے۔ اور عمران خان اس ڈیل سے کیا مقصد یا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی نوٹ ہونا چاہئے کہ القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کا اعلان پہلے بھی دو مرتبہ مؤخر ہؤا تھا۔ لیکن دونوں بار عمران خان نے اس پر اشتعال انگیز رد عمل ظاہر کیا تھا۔ البتہ اس بار ڈیل کے الزامات کو مسترد کرنے کے لیے بیرسٹر گوہر علی کو آگے کردیا گیا۔ انہوں نے اس تاخیر کی ذمہ داری جج پر ڈالتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دیا لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی مقررہ ضابطہ کے مطابق فیصلہ سننے کے لیے عدالت کیوں نہیں پہنچے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ پہلے فیصلہ مؤخر کرنے کو دباؤ کا ہتھکنڈا اور سازش قرار دینے والے تحریک انصاف کے لیڈروں نے اس بار ایسا کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ البتہ گوہر علی ڈیل کی ایسی افواہوں کی تردید کرتے رہے جن کے بارے میں کسی دوسرے کو کوئی خبر نہیں تھی۔ اس صورت حال کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو بلاشبہ یہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ آج فیصلہ کا اعلان عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کے لیے مناسب نہیں تھا ۔ اسی لیے انہوں نے اسے مؤخرکرانے میں کردار ادا کیا۔ یہ ’مقصد‘ کیا ہوسکتا ہے، اس کی وضاحت تحریک انصاف کی قیادت کو کرنی چاہئے ورنہ جس ڈیل کی تردید کی جارہی ہے تواس کے بارے میں ضرور چہ میگوئیاں ہوں گی ۔ اور یہ اندازہ بھی قائم کیا جائے گا کہ اگر ڈیل نہیں ہوئی تو ضرور کسی ڈیل کی خواہش کی جارہی ہے۔
یہ بھی محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ القادر ٹرسٹ کیس ٹھوس شواہد پر استوار ایک مضبوط کیس ہے جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کو اس میں سزا ہوگئی تو شاید کوئی اعلیٰ عدالت بھی انہیں اس پر ریلیف نہیں دے سکے گی۔ لیکن اس کیس کا فیصلہ یکے بعد دیگرے تین بار ایسےموقع پر ملتوی کیا گیا ہے جب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہورہے تھے۔ گزشتہ روز جب عدالت نے فیصلہ کا اعلان کرنے کے لیے آج کی تاریخ کا اعلان کیا تھا تو مذاکرات تعطل کا شکار تھے اور فریقین ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے تھے۔ البتہ گزشتہ روز ہی تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے رکن اسد قیصر نے اسپیکر ایاز صادق سے مذاکرات کا تیسرا سیشن منعقد کرنے کی درخواست کی۔ اور آج ہی یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ یہ اجلاس جمعرات کو منعقد ہوگا۔ اسی خبر کے جلو میں عمران خان اور بشریٰ بی بی نے عدالت سے غیر حاضر رہ کر فیصلہ مؤخر کرنے کا ایک موقع خود ہی فراہم کردیا۔
اس معاملہ کا یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جج ناصر جاوید نے ملزمان کی غیر حاضری پر فیصلہ کا اعلان چند گھنٹوں یا ایک دن کے لیے مؤخر کرنے کی بجائے جمعہ کو یعنی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تیسرے سیشن سے ایک روز بعد فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی کی اس بات سے اتفاق تو اہم ہے کہ عدالتی کارروائی اور مذاکرات کے سیاسی عمل کا باہم کوئی ربط نہیں ہے اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہئیں ۔ لیکن اگر حالات اور معاملہ میں ملوث سب کردار خود ہی نت نئے سوالات پیدا کرنے کا سبب بنیں تو یہ تعلق نہ ہونے کے باوجود اس پر شبہات تو سامنے آئیں گے۔ پاکستان میں عدالتی کارروائیاں کبھی بھی سیاسی اثر و رسوخ سے پاک نہیں رہیں۔ خاص طور سے نیب اور اس کی عدالتوں پر الزامات اور شبہات کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں اگر سارے شبہات دور کرنا مقصود ہے تو فریقین کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ آج اس فیصلہ کے اعلان میں ہونے والی تاخیر کا تعلق براہ راست ملکی سیاسی صورت حال اور لین دین کے معاملات سے ہے۔ ایسے میں یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ اس میں کون کیا مانگ رہا ہے اور کون کیا دے رہا ہے۔ البتہ اس لین دین سے انکار کرنے والوں کو ضرور بتانا چاہئے کہ وہ غیر ارادی طور سے ہی سہی اس مشکوک صورت حال باعث کیوں بنے؟
القادر ٹرسٹ کیس سادہ اور افسوسناک ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران واضح ہوچکا ہے کہ عمران خان نے غیر ضروری ہتھکنڈے اختیار کرکے اس مقدمہ کو ملتوی کرانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے کسی مرحلے پر یہ وضاحت نہیں کی کہ حکومت برطانیہ نے ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن سے غیر قانونی لین دین کے الزام میں ملک ریاض کی کمپنی سے وصول کردہ 190 ملین پاؤنڈ جرمانہ کی رقم حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن عمران خان کی حکومت نے یہ رقم اسٹیٹ بنک کے حوالے کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی تھی۔ بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2019 میں سپریم کورٹ سے 460 ارب روپے ادا کرنے کے عوض نیب کی کارروائی رکوانے کا حکم حاصل کیا تھا۔ برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن پر ہونے والے جرمانہ کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ کیوں کہ نیب بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف زمینوں کے ناجائز لین دین پر ریفرنس دائر کرنا چاہتا تھا جسے بحریہ ٹاؤن نے رکوانے کے لیے خطیر جرمانہ ادا کرنے کا وعدہ کرکے سپریم کورٹ سے حکم حاصل کیا۔
عمران خان نے ایک خفیہ معاہدہ کے ذریعے برطانیہ سے موصول ہونے والی رقم کو سپریم کورٹ کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کے لین دین میں ادا کرکے درحقیقت ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کو غیر معمولی رعایت دی تھی۔ حتی کہ کابینہ سے اس فیصلہ کی منظوری لیتے ہوئے اس کی تفصیلات کو خفیہ رکھا گیا۔ نیب کا کہنا ہے کہ اس کے عوض عمران خان اور بشریٰ بی بی نے بحریہ ٹاؤن سے القادر ٹرسٹ کے لیے رقبہ اور نقد عطیات حاصل کیے۔ یہ سارے معاملات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ عمران خان کی طرف سے اس بارے میں سیاسی بیان بازی تو بہت کی گئی ہے لیکن کبھی یہ صراحت نہیں کی گئی کہ برطانیہ سے آنے والی رقم سپریم کورٹ کے ساتھ ملک ریاض و بحریہ ٹاؤن کے حساب میں کیوں ادا کی گئی۔ اگر وہ یہ وضاحت کردیتے۔ یا یہ اعتراف کرلیتے کہ ان سے بطور وزیر اعظم فیصلہ کرنے میں کوتاہی ہوئی تھی تو شاید حکومت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ بھی قائم نہ ہوسکتا۔
یوں بھی القادر ٹرسٹ کے تحت تحریک انصاف کی حکومت میں نام نہاد روحانی یونیورسٹی قائم کرنے کا منصوبہ قائم کیا گیا تھا۔ اگر یہ فرض کربھی لیا جائے کہ برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم کسی غلط فہمی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے بحریہ اکاؤنٹ میں منتقل ہوگئی تو بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کو یہ ضرور بتانا چاہئے کہ ایک نیک مقصد کے لیے پاکستان اور برطانیہ میں فراڈ اور غیر قانونی لین دین میں ملوث بحریہ ٹاؤن کی مدد لینا اخلاقی لحاظ سے کتنا درست اقدام تھا؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )