خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اس وقت عمران خان کے بعد تحریک انصاف کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ انہیں اتوار کو سنگجرانی کے جلسہ عام میں تمام حدود عبور کرنے والی تقریر کے بعد سوموار کو رات گئے جب تحریک انصاف کے لیڈروں کو ایک ایک کرکے گرفتار کیا جارہا تھا اچانک ’روپوش‘ ہوجانے اور منگل کو علی الصبح پشاور میں نمودار ہونے کی وجہ سے بے حد توجہ اور شہرت ملی ہے۔
سوموار کو ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ علی امین گنڈا پور کو اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا اور کئی گھنٹے تک غائب رکھا۔ اس پر ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو اٹھالینا انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ اس سے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کے عمومی طرز عمل کے برعکس اتوار کو منعقد ہونے والے جلسہ میں علی امین گنڈا پور کی تقریر کو ’عوام کے جذبات‘ کی ترجمانی قرار دیا اور کہا کہ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اس بیان کے بعد تحریک انصاف کے نام نہاد چئیرمین بیرسٹر گوہر علی بھی جم کر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ علی امین گنڈا پور کی بدکلامی پر معافی نہیں مانگی جائے گی۔ کیوں کہ انہوں نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی تھی۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان کا ایک بیان تحریک انصاف کے تمام لیڈروں کو اپنی ہی باتوں سے منحرف ہونے پر مجبور کرسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی کا حال ہے جو اس وقت اپوزیشن میں ہے اور سرکاری عتاب کا شکار ہے۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے وقار کی دہائی دیتے ہوئے آئین کا احترام کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ لیکن جب جیل میں بند ایک شخص بیان جاری کرتا ہے یاریاستی اداروں پر جھوٹے الزامات عائد کرتا ہے تو ملک کی سب سے بڑی’ جمہوری پارٹی‘ کے کسی لیڈر کو کوئی اصول یاجمہوریت یاد نہیں رہتی۔ اگر ایک فرد ہی تحریک انصاف یا ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا مجاز ہے تو پی ٹی آئی کے لیڈروں کو اپنی جد و جہد کو ’حقیقی آزادی ‘ کی بجائے ’سچی غلامی‘ کا نام دینا چاہئے۔ کسی ایک شخص کی اندھی پیروی کسی قانون میں منع نہیں ہے لیکن اسے جمہوریت بتانا اور پھر اس رائے کو عوام پر ٹھونسنے کی بچگانہ کوششیں کرنا صریحاً ناجائز اور غلط ہے۔
تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کے بارے میں مسلسل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ تنازعہ میں ہے۔ اس کے ایک پارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی جعلی قرار دیا تھا اور پی ٹی آئی کے سارے وکیل ان انتخابات کے بارے میں ایک ثبوت بھی عدالت عظمی کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کو مجبوراً الیکشن کمیشن کی طرف سے تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لینے کی توثیق کرنا پڑی اور پارٹی کے امیدواروں نے مختلف نشانات پر انتخابات میں حصہ لیا۔ اس معاملہ پر سپریم کورٹ کو ناانصافی کا مرتکب قرار دے کر سوشل میڈیا پر شدید پروپیگنڈا کیاجاتا ہے اور عمران خان متعدد بار یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت میں توسیع کی جارہی ہے، اس کو مسترد کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف نے کسی ایسی جمہوریت کو ماننے سے انکار کیا ہے جس میں وہ خود اقتدار میں نہ ہو۔ اگر چہ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت تحریک انصاف کے لیڈروں و کارکنوں کی گرفتاری کے معاملہ میں شدت پسندانہ پالیسی پر عمل کررہی ہے لیکن پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی قابل ذکر تعداد میں نشستیں جیتنے کے باوجود ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔حالانکہ ملک میں نافذ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کو بھی یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے اور وہ فیصلوں اور پالیسی سازی پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی تمام پالیسی اور سیاست عمران خان کی رہائی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
تحریک انصاف جیسے جمہوریت اور نام نہاد حقیقی آزادی کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے طرز عمل ، حکمت عملی اور گفتار میں غیر جمہوری ہے۔ بعینہ انصاف کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود وہ صرف ان فیصلوں کو مبنی پر انصاف مانتی ہے جن میں تحریک انصاف کو ریلیف دیا گیا ہو۔ سپریم کورٹ کی طرف سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ عین مبنی بر انصاف مانا جاتا ہے لیکن ایسا کوئی حکم قبول نہیں جس میں تحریک انصاف کو زک پہنچتی ہو۔ ان میں خاص طور سے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ شامل ہے ۔ حالانکہ اس حوالے سے پارٹی کو اپنے وکلا سے جواب طلب کرنا چاہئے تھا کہ میڈیا میں بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود وہ کمرہ عدالت میں دلائل اور شواہد کیوں فراہم نہیں کرسکے؟ اس ناکامی کا بوجھ بھی سپریم کورٹ پر ڈال کر چیف جسٹس کو عدلیہ کے ’ولن‘ کے طور پر پیش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔ پارٹی کے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ آرمی چیف کے علاوہ چیف جسٹس کے خلاف نفرت انگیز اور جھوٹی مہم جوئی میں مصروف رہتے ہیں لیکن ایسی کسی حرکت پر قانونی کارروائی ہونے پر آزادی اظہار اور جمہوریت کے نام پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔
ملک کے جمہوریت پسند عناصر نے تحریک انصاف کے جمہوری حق کی حمایت کی ہے اور اس کے لیڈروں کے خلاف کثرت سے مقدمات قائم کرنے کو ناجائز اور غیر جمہوری طریقہ کہا ہے۔ ان سطور میں بھی اکثر تحریک انصاف کے جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے۔ لیکن جب کوئی پارٹی جمہوریت یا عدل و انصاف کو کسی سیاسی اصول کی بجائے، اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرے گی تو اس کے بارے میں متنبہ کرنا بھی جمہوری اصولوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ تحریک انصاف کے ناجائز اور غیر جمہوری طریقوں کو محض اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت یہ پارٹی اپوزیشن میں ہے یا اس کے لیڈروں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کی اتوار کے جلسے میں تقریر، اس کے بعد ان کے اچانک غائب ہوجانے پر عمران خان کی طرف سے پھیلائے گئے جھوٹ اور صحافیوں، سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں کے بارے میں بدکلامی کو ’عوام کے جذبات‘ قرار دے کر تحریک انصاف کے بانی چئیرمین نے خود بنیادی انسانی و جمہوری اصولوں سے روگردانی کی ہے۔ اس کے باوجود انہیں یا ان کی پارٹی کو اس طرز عمل پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ ایک صحافی کے لیے بہر حال اس کج روی اور غیر اخلاقی رویہ کو ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔
علی امین گنڈا پور سوموار کو ’غائب‘ رہنے اور بالواسطہ طور سے عمران خان کے الزامات کی تردید کرنے کے باوجود دو روز تک منظر عام پر نہیں آئے۔ البتہ ان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ سوموار کی رات کو سرکاری حکام سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔ اس علاقے میں چونکہ جیمرز لگے ہوئے تھے ، اس لیے ان کا موبائل بند رہا اور وہ کسی سے رابطہ نہیں کرسکے جس کی وجہ سے غلط فہمی اور پریشانی پیدا ہوئی۔ یہ بیان ناکافی اور نقائص سے بھرپور ہے۔ اس کے باوجود اس بیان میں منگل کی صبح عمران خان کے ان الزامات کی تردید ہوگئی کہ علی امین گنڈا پور کو اسٹیبلشمنٹ نے اٹھا لیا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ وہ خود اپنی مرضی سے ملاقات کے لیے ایسی جگہ گئے تھے جہاں موبائل کئی گھنٹے تک بند رہا۔ مزید گفتگو سے پہلے یہ واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ ایک طرف وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا ایک ایسے وقت کسی ’خفیہ اہم ملاقات‘ کے لیے غائب ہوگئے جس وقت سنگجرانی کے جلسہ میں تقریریں کرنے اور قانون شکنی کے الزامات میں تحریک انصاف کے لیڈر گرفتار ہورہے تھے۔
اب انہیں دو روز بعد بڑھکیں مارنے کی بجائے ایک تو یہ واضح کرنا چاہئے کہ ان کے لیڈر نے ان کے اٹھائے جانے کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔ دوسرے یہ بتائیں کہ کیا انہیں اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے بچانے کے لیے خاص طور سے کسی ’خفیہ‘ میٹنگ میں بلا لیا گیا تھا؟ علی امین گنڈا پور بہر حال ملک کے چار صوبوں میں سے صرف ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس دوران کسی دوسرے صوبے کا وزیر اعلیٰ ایسی کسی حساس ملاقات میں شریک نہیں تھا جہاں اس سے ہر قسم کا رابطہ ناممکن ہوتا۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ ایسی حساس اور خفیہ ملاقات میں جانے سے پہلے کیا وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ اپنے قریبی معاونین کو آگاہ کرنے کے پابند نہیں تھے تاکہ غیر ضروری پریشانی پیدا نہ ہو اور افسوسناک افواہ سازی نہ کی جائے۔ یا یوں غائب ہونے کا بنیادی مقصد ہی سنگجرانی میں پیدا کیے گئے اشتعال کو ہیجان اور سنسنی خیزی میں بدلنا تھا؟
دو دن منظر نامہ سے غائب رہنے کے بعد علی امین گنڈا پور نے آج چیف منسٹر ہاؤس میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بظاہر اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے اور عمران خان کے ساتھ وفاداری نبھانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے اپنی اصلاح کرلیں کیوں کہ اسی میں سب کا اور ان کا فائدہ ہے۔ البتہ اس ’انتباہ‘ کے لیے انہیں خاص طور سے چند لوگوں کو اکٹھا کرکے تقریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ یہ بات ’ان‘ سے اس وقت بھی کہہ سکتے تھے جب وہ انتہائی رازداری میں کئی گھنٹے تک تن تنہا اسٹیبلشمنٹ کے مہمان رہے تھے۔ یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ علی امین گنڈا پور ایک ایسے وقت اسٹیبلشمنٹ کی مہمان نوازی سے مستفیض ہورہے تھے جس وقت ان کا محبوب لیڈر اسٹیبلشمنٹ سے ہر قسم کی بات چیت کے دروازے بند کرنے کا اعلان کررہا تھا۔ اس صورت میں تو انہیں یہ وضاحت دینی چاہئے کہ درحقیقت وہ کس کے حامی یا وفادار ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے انہیں کسی نہ کسی طاقت کی حمایت اور تائید تو درکار ہے۔ کیا واقعی وہ عمران خان کی ہلہ شیری اور تائید پر اپنے سیاسی قد سے اونچی چھلانگیں لگا رہے ہیں؟
علی امین گنڈا پور نے خیبر پختون خوا میں امن کے لیے براہ راست افغانستان سے بات چیت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ ’میرے لوگوں کا خون بہہ رہا ہے۔ میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ امن کے لیے خود کابل سے بات چیت کرنے اور دہشت گردی ختم کرانے کے لیے وفد بھیجوں گا‘۔ اس سے قطع نظر کہ یہ بیان ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی طرف سے وفاق کے امور میں مداخلت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کیا وجہ ہے کہ وہ وفاق یا ’اداروں‘ کے اشتراک سے افغانستان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے جن کے ساتھ خفیہ ملاقات کے لیے وہ گھنٹوں غائب رہتے ہیں۔یہ بیان اور علی امین گنڈا پور کا طرز عمل یہ استفسار کرنے پر اکساتا ہے کہ وہ درحقیقت کس مشن پر گامزن ہیں۔ تحریک انصاف کے علاوہ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس سوال کا شافی جواب تلاش کرکے اسے عوام تک پہنچانا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ