رات کا پچھلا پہر تھا اور نیند اس سے ابھی کوسوں دور تھی ۔باہر تیز بارش ہورہی تھی آسمان زمین والوں پر اپنی خفگی مٹارہا تھا۔روشنی بھی ڈرتی کانپتی لگتی تھی ۔ٹیبل پر پڑا لیمپ ہوا کے زور سے باربار ہل رہا تھا۔دور آسمانوں پر گرج کی آواز رقص کرتی ہوئی ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتی اور لوٹ آتی کہیں بجلی کڑکتی تو دل دہلا دیتی درختوں کو ٹہنیاں تیز ہواکے سامنے خجل ہوکر سرجھکا رہی تھیں ۔پرنالوں سے بارش کا پانی زور زور سے گررہا تھا۔پورے محلے کی کسی بھی کھڑکی سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔وہ کبھی اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھتا تو کبھی اپنے کمرے کا منظر ۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کبھی وہ کچھ سوچتا تو کبھی کچھ اور ۔ سوچ اور اس کے درمیان گہری جنگ شروع ہوچکی تھی ۔اس کا ذہن کبھی اسلحہ سمیت سوچ کے اس میدان جنگ میں کود پڑتا اور کبھی پسپا ہوکر پیچھے ہوجاتا وہ کسی فیصلہ کن مرحلہ تک نہیں پہنچ پا رہا تھامگر اسے فیصلہ تو کرنا ہی تھا۔وہ ڈاکٹر فیروز ملک تھے شہر کے بہترین ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین سوچ کے مالک بھی تھے ۔ شہر میں ان کا مشہور و معروف میڈیکل سنٹر تھا ۔ڈاکٹر فیروز ملک کے دوبیٹے شرجیل ملک اور عادل ملک تھے شرجیل کسی فرم میں ملازمت کرتا تھا جب کہ عادل انسپکٹر تھاڈاکٹر فیروز ملک نے اپنے دونوں بچوں کی پروش دین اسلام کے مطابق کی تھی ۔ڈاکٹر فیروز ملک اپنے بیٹوں اور بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہے تھے۔معمول کے مطابق ڈاکٹر فیروز ملک تیا ر ہوکر ہسپتال چلے گئے سارا دن مریضوں کو چیک کرنے میں گزار دیا ۔شام کو جب ڈاکٹر فیروز اپنے کمرے میں بیٹھے تھے انہیں اطلاع دی گئی کہ ایک زخمی ملزم پولیس کی حراست میں ہسپتال میں لایا گیا ہے۔آکر چیک کرلیں ڈاکٹر فیروز زخمی ملزم کو دیکھنے گئے جو ایک خاص کمرے میں داخل ہوچکا تھا ۔اور کمرے کے باہر پولیس کھڑی تھی ۔فیروز ملک کمرے میں داخل ہوئے ملزم بے ہوش تھاڈاکٹر فیروز نے ملزم کے چہرے کی طرف دیکھا تو انہیں حیرت کا جھٹکا لگا ۔انہوں نے سوچا بھی نہ تھاکہ ایسا ہوگا ۔دراصل وہ ملزم کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر فیروز کا بڑا بیٹا شرجیل تھا۔ڈاکٹر فیروزملک نے معلومات لیں تو معلوم ہوا کہ اس ملزم کی پولیس کو تلاش تھی ۔اوریہ سب کی نظروں سے اوجھل تھا۔ایک ہوٹل میں چھاپہ مار کر اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وہ فرار ہونے لگا تو انسپکٹر عادل نے اس کی ٹانگوں پر فائر کھول دیا اور ملزم لڑکھڑا کرگرگیا ۔یہ وہ ملزم ہے جس کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔یہ ملزم اپنا وار نقاب کرکے رات کی تاریکی میں کرتا تھا۔ڈاکٹر فیروز ملک اس شام بہت پریشان رہے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔کہ جس بیٹے کو میں نے دین اور وطن کی محبت کا درس دیا تھا ۔جس کو ملک و قوم کی خدمت کاسبق دیا تھا ۔وہی اپنے وطن کی تباہی کا سبب بن رہا ہے وہی وطن دشمن ہے۔ڈاکٹر فیروز ملک کے چھوٹے بیٹے انسپکٹر عادل ملک بھی آچکے تھے انہوں نے اپنے ابو کو حوصلہ دیا انسپکٹر عادل نے فیروز ملک سے کہا اباجان میں حیران ہوں شرجیل بھائی کا اصلی روپ دیکھ کر سوچاتو میں نے بھی نہیں تھا۔اگر آپ کہیں تو میں شرجیل بھیا کو فرار بھی کروا سکتا ہوں اس طرح آپ کی عزت پر داغ لگنے سے بچ جائے گا۔ابھی کسی کو کیا پتہ کہ شرجیل کس کا بیٹا ہے ڈاکٹر فیروز ملک انسپکٹر عادل کو کچھ جواب دیے بغیر گھر چلے آئے ۔ اس رات بادلوں بھی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اور زور دار بارش شروع ہوچکی تھی ڈاکٹر فیروز ملک اپنے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہے تھے ۔ اور سوچ رہے تھے کہ وہ کیا کریں ۔کبھی ان کی سوچ کچھ کہتی توکبھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے تھے ۔انسپکٹر عادل کے کہے ہوئے الفاظ بھی ان کے دماغ میں گونج رہے اور یہ بھی سوچ رہے تھے کہ ہسپتال کے کمرے کے ساتھ باغیچہ ہے ایک دروازہ اس کی طرف کھلتا ہے ۔اگر وہ شرجیل کو اندر سے غائب کر دیں تو سب سے بہتر ہوگا ۔کبھی وہ ایسا کرنے سے رک جاتے ۔ حق اور باطل کی جنگ جاری تھی۔وہ کبھی اپنے بیٹے کو تو کبھی اپنے پیارے وطن کے لوگوں کا سوچتا اگر وہ اپنے بیٹے کو بچاتے تو وطن کے لوگوں کا سکھ چین لیتے اگر وہ وطن کا سوچتے تو اپنے جگر کو خود سے دور کرکے ہمیشہ کے لیے بے چین ہوجاتے ۔ اسی کش مکش میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے۔ادھرانسپکٹر عادل بھی پریشان تھے اور اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہے تھے ۔کہ وہ کیا کرے انہوں نے تو اپنے ابو کو آفر کردی تھی ۔لیکن انسپکٹر عادل ایک فرض شناس پولیس آفیسر تھے۔ان کی سوچ بھی آج بدل گئی تھی ۔انسپکٹر عادل اپنے فرض پر سب کچھ قربان کرنے والے سپاہی تھے ۔مگر آج سوچ وبچار کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا ا ور اپنے ابو کے کمرے کی طرف چل دیے ڈاکٹر فیروز ملک بھی ایک خاص حد تک کسی فیصلہ پر پہنچ چکے تھے اور انسپکٹر عادل کے کمرے کی طرف چل دیے ۔لیکن دونوں کا ٹکراؤ گھر کے برآمدے میں ہی ہوگیا تھا۔انسپکٹر عادل نے فیروز ملک سے پوچھا ابو آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے ۔؟کافی دیر خاموشی چھائی رہی ہواکے جھونکے ان کے چہروں پر تھپیڑے کی طرح برس رہے تھے ساتھ ساتھ بارش کے پانی کے چھینٹے بھی شامل تھے ۔کافی دیر خاموشی رہنے کے بعد ڈاکٹر فیروز ملک انسپکٹر عادل سے مخاطب ہوئے بیٹا تم شرجیل کو رہا مت کرنا اسے کڑی سے کڑی سزا دلوانا ۔کیونکہ یہ ملک و قوم کا دشمن ہے اللہ تعالیٰ کا گناہگار ہے ہم نے اس کی تربیت جن اصولوں پر کی تھی ۔وہ ان اصولوں سے بھٹک گیا ہے اور جو اصولوں سے بھٹک جائے اس کو سزا دینا بھی ضروری ہے۔یہ کہہ کر ڈاکٹر فیروز ملک خاموش ہوگئے۔تو انسپکٹر عادل نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا ۔کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں ۔مسز ڈاکٹر فیروز جو یہ سارا ماجرا دیر سے دیکھ رہی تھیں ۔ان کے قریب آئیں اور کہا مجھے فخر ہے آپ دونوں پر کہ آپ نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔بارش تھم چکی تھی ۔ اب صرف ہوا چل رہی تھی جس نے آسمان پر چھائے بادل ہٹادیے تھے اور ایک ہنستا مسکراتا ستارہ باپ بیٹے کے اس فیصلے کو سلامی دے رہا تھا۔
فیس بک کمینٹ