کچھ لوگ ہر وقت لڑنے مرنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں، کبھی کسی سے جھگڑا تو کبھی کسی سے فساد، ایسے لوگوں کے نزدیک زندگی کے ہر مسئلے اور ہر معاملے کا حل لڑائی مار کٹائی میں ہوتا ہے۔سڑک پر گاڑی کے پچھلے بمپر سے کوئی سائکل چھو جائے یا پھر گلی میں کھیلتے بچوں کا چوکے یا چھکے کی حد بندی پر کوئی جھگڑا ہوجائے یا پھر کسی چائے خانے میں کسی سیاسی نکتے پر اختلاف رائے تو تکار میں بدل جائے، آپ کو ہر جگہ ایسے لوگ ضرور ملیں گے جو آستین لپیٹ کر فورا ہی مار پیٹ پر اتر آتے ہیں۔زندگی صرف سر پھاڑنے اور مکے لہرانے کا نام نہیں،صدر ٹرمپ سے سبق سیکھنا پڑے گا، انہیں ان ہی کے لوگوں نے مزاج اور کردار کے حوالے سے ہر طرح کی تنقید اور تمسخر کا نشانہ بنایا، سوشل میڈیا پر ان کی ایسی فلمیں اپ لوڈ کی گئیں جس سے ظاہر ہو کہ ان سے بڑھ کر پورے امریکا میں اخلاقی گراوٹ کا شکار دوسرا کوئی بھی نہیں، لیکن صدر ٹرمپ مسکراتے رہے، سنجیدہ سے سنجیدہ بات کا بھی مزاق سے جواب دیا، کہیں بھی اپنا درجہ حرارت بے قابو نہیں ہونے دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے گئے۔لوگوں نے ان کے کردار کے ہر جھول کو ان کی قوت برداشت کے سامنے نظر انداز کردیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آجکل امریکا میں سابق صدر براک اوباما کی اہلیہ مشعال اوباما اور سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ جارج ڈبلیو بش اور مشعال اوباما کے درمیان پچھلے آٹھ برسوں میں اتنی قربت بڑھی ہے کہ لوگ شک میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اگر چہ مشعال اور صدر بش کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان صرف اور صرف دوستی کا رشتہ ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں لیکن ناقدین کبھی بھی کسی کے قابو میں نہیں ہوتے۔ تاہم اچھی بات یہ کہ میڈیا کی جانب سے انتہائی قابل اعتراض الزامات کے باوجود مشعال اور مسٹر بش نے کسی لمحے بھی غصے میں آکر بدتمیزی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں مسٹر اوباما کا کردار بھی قابل تحسین ہے کہ وہ لوگوں کے بھڑکانے میں نہیں آئے اور سوشل میڈیا پر ان کی ایسی تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جن میں وہ اپنی اہلیہ کو مسٹر بش کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔برداشت اور مزاج کا ٹھہراؤ زندگی کو آسان کردیتا ہے۔خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔۔۔۔ ادبی حوالوں کی تو مجھے خبر نہیں لیکن ہمارے عمومی معاشرے میں ناقدین تو کہتے ہی ان کو ہیں جو تعصب اور تنگ نظری کی عینک لگا کر چاولوں کی پکی ہوئی دیگ میں صرف کنکر ڈھونڈتے رہتے ہیںچاہے تلاش کے اس عمل میں وہ خود کھانے سے محروم ہی کیوں نہ رہ جائیں۔یاد رکھیے، ہماری طرف سے برداشت کا مظاہرہ دوسری طرف موجود لوگوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کا موقعہ ضرور فراہم کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں تیزی سے سلگاؤ کی طرف بڑھتے ہوئے سیاسی موسم سے لطف اندوز ہونے والوں کو بھی تحمل اور برداشت جیسے موضوعات میں کچھ نہ کچھ دلچسپی ضرور لینی چاہیے۔آپ سب ہی نے غور بھی کیا ہوگا اور احساس افسوس بھی کہ ہمارے ہاں جب بھی الیکشن کے حوالے سےسیاسی چہل پہل کا آغاز ہوتا ہے تو ووٹ ڈالنے اور نتائج کا اعلان ہونے تک بہت سے جذباتی لوگ اپنی جان سے محروم ہوجاتے ہیں۔ کبھی کسی سیاسی جلسے میں جھگڑا تو کبھی پولنگ سٹیشن پر لڑائی، مارا جانے والا عام طور پر انتخابی امیدوار خود نہیں ہوتا، اس کے ووٹرز یا پھر سپورٹرز ہوتے ہیں۔قابل رحم پہلو یہ کہ بعض صورتوں میں تو مرنے والوں کا نام پتہ بھی امیدوار کے لیے نا آشنا ہوتا ہے۔۔۔۔مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے۔۔۔۔ایسے تمام معاملات بلکہ سانحات میں اصل کردار ہمیشہ جذباتی پن اور عدم برداشت کا ہوتا ہے۔سنا ہے کہ اشتعال محض دس سیکنڈ پر مشتمل ایک دورانیے کا نام ہے، اگر اشتعال دلائے جانے یا غصہ آنے کی صورت میں توجہ کو تھوڑا سا کسی اور سمت منتقل کر لیا جائے تو انسان ان دس سیکنڈز کو بحفاظت گذار سکتا ہے۔شاید اسی لیے ہمارے بڑے بوڑھوں نے ہمیشہ یہی تربیت دی کہ غصہ آئے تو فوراًً درود پاک یا پھر اسمائے الہی کا ورد شروع کردو، غصہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔تاہم کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں ہماری برداشت اور ہمارا تحمل صورت حال کو بگاڑنے کا سبب بن جاتے ہیںلیکن ایسے معاملات ا عموماًً انفرادی کی بجائے اجتماعی یا پھر قومی نوعیت کے ہوتے ہیں۔انسان کا مینٹل میکینزم بھی نہایت عجیب ہے، اپنی ذات کے لیے گالی بھی برداشت ہوجاتی ہے اور توہین و تذلیل بھی لیکن اگر اسی توہین و تذلیل کا نشانہ ملک ہو، نظریات ہوں یا پھر عقائدہوں تو انسان سے بالکل بھی برداشت نہیں ہوتا۔ابھی عید سے دو دن بعد مجھے ایک دوست کے اصرار پر سینیما ہال جاکر ’آزادی‘ نام کی ایک نئی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا، کشمیر کی آزادی اور بھارت کی پاکستان دشمنی کے موضوع پر بننے والی اس فلم میں اگرچہ ہدایت کاری کے حوالے سے کئی جھول ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ ایک صاف ستھری کامیاب فلم ہے۔دوران فلم شائقین نے بھارت کے خلاف بولے جانے والے ہر ڈائلاگ پر ایسی نعرے بازی کی کہ مجھے گمان ہونے لگا میں سینیما ہال میں نہیں بلکہ محاذ جنگ پر ہوں۔ بھارت کے خلاف ایسے نفرت بھرے اجتماعی جذبات کا اظہار میں نے بہر حال زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اگرچہ میں ذاتی طور پر ہمیشہ برداشت اور تحمل کی تبلیغ کرنے والوں کی قطار میں ہوتا ہوں لیکن مجھے محسوس اس سچائی سے بھی انکار نہیں کہ اجتماعی قومی معاملات میں برداشت اور تحمل قوموں کی بقاءکے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔عالمی سطح پر اگر ظلم اور زیادتی کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کی جائے تو معاملا ت سرد مہری اور بے اعتنائی کی ٹوکری میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ آپس کے چھوٹے چھوٹے بے حیثیت سے معاملات میں الجھ کر اپنی توانائی ضائع کرنے کی بجائے ہمیں ان اجتماعی مسائل کی طرف توجہ دینا چاہیے کہ جن سے ہماری بقاءاور سلامتی منسلک ہے۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ہماری اجتماعیت کو پاش پاش کرنے کے لیے ہمارے دشمن ممالک سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو بھی بھٹکانے کی خاموش جدوجہد میں مصروف ہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر ایسے گروپ تشکیل دیے گئے ہیں جو بظاہرآزاد خیالی، امن دوستی اور عالمی بھائی چارے کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن در حقیقت ان کا مقصد گروپس میں شامل پاکستانی نوجوانوں کو پاکستان کے محافظ اداروں سے بد ظن اور بدگمان کرنا ہوتا ہے۔افسوس کا پہلو یہ ہے کہ ہمارے کچھ انتہائی معتبر تعلیمی اداروں سے وابستہ اساتذہ کرام لاعلمی میں ان گروپس میں شامل ہوکر خود پر لبرل ازم کا لیبل لگوانے کے لیے بہت سی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو کسی طور بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں۔قومی مفادات کے نگہبان اداروں کو اس طرح کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔باقی نام اللہ کا۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ