یہ کہاوت اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا، لیکن یہ سچائی بھی اپنی جگہ ہمیشہ سے قائم دائم ہے کہ ڈرایا صرف اسی کو جاتا ہے جو ڈرنا چاہتا ہے۔ہمار ا ارادہ، ہماری ہمت اور ہمارا حوصلہ غیر متزلزل ہو تو یقین کیجیے زندگی کے کسی بھی محاذ پر نہ تو ہمیں ڈرایا جاسکتا ہے نہ ہی ہرایا جاسکتا۔اپنے اکہتر برس کے پاکستان کو ہی دیکھ لیں، ساری دنیا اس پیارے سے ملک کوخدانخواستہ نیست و نابود کرنے کے لیے بارہا یک جان ہوئی، ان گنت منصوبے بنائے گئے کہ پاکستان کو سفارتی، سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے بالکل تنہا کردیا جائے، کبھی خودکش بمباروں سے ڈرایا گیا تو کبھی بچوں کے گلے کاٹنے والوں سے سہمایا گیا،رہی سہی کثر میڈیا وار کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان دھیرے دھیرے اپنا سفر طے کرتا رہا۔آج سوات اور وزیرستان جیسے وہ علاقے جہاں مقامی لوگ بھی باہر نکلتے ہوئے گھبراتے تھے ، ایک بار پھر دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں، جن علاقوں میں لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنے لیے گرلز سکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا تھا ، آج انہی علاقوں میں نئے تعلیمی ادارے قائم ہوچکے ہیں۔سی پیک منصوبے کو آغاز ہی میں سبوتاژ کرنے کے لیے بلوچستان میں بھارتی ایجنٹوں کے ذریعے افراتفری اور بدامنی پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکن بلوچستان کے محب وطن لوگوں نے سیکیورٹی اداروں کی معاونت سے ایسے ہر منصوبے کو ناکام بنادیا۔آج اسی بلوچستان میں جمہوری تسلسل کامیابیوں کی نئی منزلوں کو عبور کرتا مزید استحکام کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ دراصل یہ سارا مقابلہ ہمتوں اور حوصلوں کا ہے۔ہمارا اتحاد، اتفاق اور ہماری یکجہتی کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو ہمیں ریزہ ریزہ کرنے کے خواہشمند جلد ایسے فنا ہوں گے کہ ان کا حوالہ تاریخ کی کتابوں میں بھی مشکل ہی سے مل سکے گا، تاہم ان تمام باتوں کا یہ نچوڑ بالکل بھی نہیں کہ ہمارے بدخواہ مکمل طور پر مٹ چکے ہیں اور اب ہمیں کسی سمت سے کوئی خطرہ نہیں۔آپ میں سے کچھ لوگوں کے علم میں یقینا ہوگا کہ ابھی چند روز پہلے پارا چنار ائرپورٹ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک بھارتی شہری رام بہارکو گرفتار کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق یہ بھارتی شہری افغانستان کی طرف سے پاکستان کی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوا،پینتیس سالہ رام بہار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کا تعلق بھارتی ریاست گجرات سے ہے اور وہ وہاں کی مقامی بولی بولنے کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں بول سکتا۔اداروں کو اس کے پاس سے کسی قسم کی کوئی سفری دستاویز بھی نہیں مل سکیں اور نہ ہی اس کے پاس کسی قسم کی کوئی شناختی علامت موجود تھی ۔ مذکورہ شخص سے سر دست پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے اور یقین ہے کہ یہ گرفتاری بہت جلد کلبھوشن قسم کے کسی بڑے نیٹ ورک تک پہنچنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
را کی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گردوں کی چھپی دبی کارروائیوں کی بات ہو تو گلگت بلتستان میں لڑکیوں کے سکول نذر آتش کیے جانے کے حالیہ واقعات نظر کے سامنے آجاتے ہیں۔ صرف اگست کے مہینے میں پند رہ کے لگ بھگ گرلز سکول دہشت گردوں نے جلا کر خاکستر کردیے۔ان میں سے زیادہ تر سکول دیامیر کے علاقے میں واقع تھے۔یہ وہی علاقہ ہے جہاں پوری قوم چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی اپیل پر دیامیر۔بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ہر ممکن فنڈ ریزنگ میں مصروف ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک 95کروڑ روپے سے زائد کی رقم جمع ہوچکی ہے۔لگتا یوں ہے کہ عوامی تعاون جاری رہا اور کرپشن سے کماکر باہر بھیجا جانے والا سرمایہ ملک میں واپس آگیا تو مذکورہ ڈیم کی تعمیر میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ہمارے بدخواہ بھی اس سچائی سے آشنا ہیں کہ پاکستانی قوم اگر کسی کام کے پیچھے پڑ جائے تو وہ کام ہو کر ہی رہتا ہے۔دیامیر بھاشا ڈیم کی تکمیل کو روکنا پاکستان کے بدخواہوں کا ایک خواب ہے۔اپنے اس خواب کی تکمیل کے لیے وہ دیامیر کے علاقے میں وہی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح کی کوششیں کبھی سوات میں کی جاتی رہی ہےں۔یہاں یہ سوال اپنی جگہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ دہشت گرد اپنی ’اینٹری‘ دینے کے لیے لڑکیوں کے سکولوں کو نذر آتش کیوں کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکیوں کے سکولوں کو نذر آتش کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنے بارے میں عوام کو یہ تاثر دے سکیں کہ ان کا تعلق انتہاپسند مذہبی گروہوں سے ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کو اسلامی روایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔حالانکہ سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔ کوئی بھی دینی تنظیم کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہوتی۔ پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے زیر انتظام ایسے بے شمار مدارس کام کر رہے ہیں جہاں لڑکیاں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کے علوم حاصل کر رہی ہیں۔ ایسے اداروں سے ہر برس سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بچیاں حفظ کلام پاک کی تکمیل کے ساتھ ساتھ، کمپیوٹر اور دیگر سا ئنسی علوم پر بھی دسترس حاصل کرتی ہیں۔ دین اسلام میں کہیں بھی اور کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم پر روک ٹوک عائد نہیں کی گئی۔سکولوں کو نذر آتش کرنے والوں کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ عوام اور بالخصوص ہماری نئی نسل میں خوف و ہراس پھیلایا جاسکے۔پھر یہ بھی ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ انتہا پسندوں کا معاشرہ ہے اور اقوام عالم کو اس طرح کے معاشرے کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔پاکستانی معاشرہ کسی طور بھی انتہا پسند معاشرہ نہیں تاہم یہ بات ضرور ہے کہ کمزوروں کی حمایت میں ظالموں کے سامنے لوہے کی دیوار بن جانے کا حوالہ ہو تو پاکستان کا نام ہمیشہ سر فہرست ہوتا ہے۔۔ آج اگر پاکستان نہ ہوتا تو مقبوضہ کشمیر کے بے بس لوگ اپنا وجود اور اپنی شناخت تک کھو چکے ہوتے۔فلسطینیوں کی جنگ آزادی ہو یا پھر برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا وحشیانہ ظلم و ستم یا پھر سر ی لنکا میں بد امنی کی پھیلائی جانے والی لہر،پاکستان ایسے ہر منظر میں مدد اور تعاون کے حوالے سے ہمیشہ سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔امریکا سے تعلقات بگڑنے کے باعث ہمارا برادر ملک ترکی اقتصادی حالات کے حوالے سے کچھ زیادہ پرسکون نہیں ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ترکی کو ساری پاکستانی قوم کی طرف سے یقین دلایا ہے کہ ترکی کے لیے اس سخت زمانے میں پاکستان اپنے اس برادر ملک کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑے گا۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان جس طرح ترقی کی نئی منزلوں کی طرف گامزن ہے امید ہے کہ پاکستان جلد اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر لے گا۔امن کے فروغ کے لیے خالصتہً انسانی بنیادوں پر اگر امریکا کو بھی پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوگی تو پاکستان امریکا کی تمام نا انصافیوں کو بھلا کر امریکی عوام کی مدد کے لیے پیش پیش ہوگا، یہی نئے پاکستان کی پالیسی بھی ہے اور یہی دنیا کے لیے پیغام بھی۔۔۔باقی رہے نام اللہ کا۔
فیس بک کمینٹ