مسئلہ کسی ایک علاقے یا گروہ کا نہیں۔ نہ ہی یہ مسئلہ علاقائی روایات کا ہے اور نہ ہی مسئلہ میڈیا کے ذریعے اجاگر ہو جانے والے اکّا دکّا واقعات کے خلاف قانونی کاروائی کرنے سے حل ہو سکتا ہے۔ ہاں لوگوں کے دلوں میں وقتی طور پر ایک ڈر ضرور پیدا کیا جا سکتا ہے، تا کہ ایسے واقعات کی تعداد میں کمی لائی جا سکے۔ مگر اصل مسئلہ معاشرے کے اجتماعی شعور میں تبدیلی کا ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی جب ونی،کاروکاری یا عقیدے اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر کسی کی جان لینے کا کوئی واقعہ میڈیا کے ذریعے سامنے آتا ہے، ہم سب کا فوری ردّ ِ عمل افسوس اور مذمتّ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے پسِ پردہ کارفرما سوچ کا کہیں ہم بھی حصّہ تو نہیں ہیں؟ اور وہ سوچ ہے ملکیت کا تصوّ ر۔ اس تصوّر کا انسانی سماج میں ارتقاء کئی صدیوں پر محیط ہے۔ اس کا آغاز بنی نوع انسان کے زراعتی دور میں داخل ہونے کے ساتھ ہوا۔ جب انسان نے غاروں سے نکل کر میدانی علاقہ جات میں بودوباش اختیار کی، اور خوراک کے حصول کے لیے زمین کاشت کر کے اناج کے حصول کے طریقہ سے آشنا ہوا، تو اپنے کاشت کردہ زمین کے ٹکڑے نے اسے ملکیت کے احساس سے بھی آشنا کروایا۔ ملکیت کے اس جذبے نے پالتو جانوروں اور دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی مِلک میں شامل کر لیا، کیونکہ زراعت پر اجارہ داری نے مرد کو حصولِ معاش میں برتری عطا کر دی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ہر قبیلے کے ایک ذاتی خدا کا تصوّر جو اس کی اپنی ملکیت تھا، اور اسے دوسرے تمام مروّج خداؤں پر غلبہ دلوانے کا جذبہ، اس زرعی معاشرے کے نمایاں وصف تھے۔
بنیادی طور پر عورت کو پراپرٹی سمجھنے کی یہ سوچ اور اپنے عقیدے اور نظریے کی برتری منوانے کی جستجو، زرعی معاشرے کا ایک وصف ہے۔ زمانہ صنعتی دور سے ہوتا ہوا کمرشل اور آئی۔ٹی۔ کے عہد میں داخل ہو چکا ہے، مگر ہم جدید دور کی سہولیات سے استفادہ کرنے کے باوجود ابھی اسی زرعی، جاگیردارانہ دور سے آگے نہیں نکل سکے،اور آج بھی جدید دنیا اور قدیم جاگیردارانہ دور کے درمیان کہیں اٹکے ہوئے ہیں۔
تو ایک لمحہ رک کر سوچتے ہیں کہ کہیں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہمارے لاشعور میں ایک جاگیردارانہ سوچ رکھنے والا مرد تو نہیں چھپا ہوا، جس کے لیے اس کی بیوی، بہن یا بیٹی اس کی ذاتی پراپرٹی سے زیادہ کچھ نہیں، اور وہ اس کو ایک آزاد وجود کے طور پر تسلیم کرنے اور اس کی انفرادی شناخت کو قبول کرنے کو آج بھی تیار نہیں؟ اور کیا ہم آج خود کو یہ تسلیم کرنے کا اہل پاتے ہیں کہ ہمارے عقیدے یا نظریے کا مطلق سچ ہونا ضروری نہیں، مقابل کا نظریہ یا عقیدہ بھی درست ہو سکتا ہے۔ ایسا ہے تو یقین مانئے ہم میں اور کسی بے گناہ انسان کو قتل کرتے ہجوم اور مظفر آباد کی اس پنچائیت میں کوئی فرق نہیں، جس نے زیادتی کی سزا کے طور پر مبیّنہ ملزم کی بہن کو زیادتی کے لیے پیش کر دیا۔ اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا کہ تعلیم نے ہمارے اندر پوشیدہ احساس ِملکیت کو لاشعور کی جانب دھکیل دیا ہے، مگر معاشرے میں خواتین سے متعلق معاملات میں ہمارے منافقانہ رویّے اور اختلاف کے نتیجے میں کسی کی جان لے لینے کے واقعات کے متعلق ہمارے دہرے معیار، ہمارے لاشعور میں چھپے اسی ملکیت کے جذبے کو وقتاً فوقتاً عیاں کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ لوگ وراثت میں ملی فرسودہ سوچ اور ذہنی افلاس کے اظہار میں آج بھی اسی بے ساختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کہ زرعی معاشرے کا خاصہ ہے۔
فیس بک کمینٹ