اگر واقعی کچھ چیزیں انسان کے خون میں آتی ہیں تو مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ کتابوں سے محبت اور شاعری سے رغبت، میں نے اپنے بزرگوں سے وراثت میں پائی ہے۔ میرے پردادا فارسی اور پنجابی میں عارفانہ کلام کہتے تھے، اور نہایت قادرالکلام شاعر تھے۔ میرے دادا اور ان کے بھائیوں نے تو شائد اپنی ساری عمر حکمت، تصوف، شاعری اور کتب نویسی میں ہی تج دی۔ ہوش سنبھالتے ہی گھر میں ان بزرگوں کے ہاتھ کی لکھی تصوف اور دیگر موضوعات اوران کے شاعرانہ کلام کی کتب کے انبار دیکھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بچپن میں جیب خرچ کے طور پر ملنے والے ایک روپے سے میں روز سکول کے قریبی بک سنٹر سے پچاس پیسے میں ملنے والی دو کہانیاں خرید لیتا۔ عمر کے ساتھ ساتھ ٹارزن، عمرو عیار، چلوسک ملوسک یا آنگلو بانگلو سے ہوتے اشتیاق احمد اور پھر ابنِ صفی کے جاسوسی ناول تک پہنچے۔ ساتویں کلاس تک میں اپنی والدہ کے سکول کی لائبریری سے بہادر شاہ ظفر، داغ، مومن کی شاعری اور سعادت حسن منٹو کے سارے افسانے کئی مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ میرے ننھیال میں نانا اور ماموں کی الگ الگ لائبریریاں تھیں۔ نانا پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر اور سائنسدان ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے اپنا ایک اردو اور ایک پنجابی شعری مجموعہ بھی شائع کروایا تھا۔ ان کا سٹڈی روم کتابوں سے بھرا تھا۔ ماموں کی لائبریری میں ہی عبدالحمید عدم، ناصر کاظمی، احمد فراز، فیض ن۔م۔راشد اور مصطفیٰ زیدی کی شاعری سے آشنا ہوا۔ والدہ شادی کے بعد جہیز کے ساتھ اپنی ہسٹری کی ساری کتابیں بھی لیتی آئی تھیں۔ والد کی کتابیں بھی موجود تھیں۔ غرض یہ کہ کتابوں کی محبت بڑھتی چلی گئی، اور آج بھی اسی طرح قائم ہے۔
میں نے اپنے اس تجربے سے ایک چیز جانی ہے۔علم کوئی مادی چیز نہیں جسے آپ کسی طرح یکدم حاصل کر لیں۔ نہ ہی یہ کوئی روحانی تجربہ ہے، جہاں کسی مرحلے میں آپ پر عالمِ غیب کے حقائق آشکار ہونے لگیں، یا کوئی انحد کا تار بجنے لگے۔ مسلسل مطالعہ اور غوروفکر رفتہ رفتہ بہت غیر محسوس طریقے سے آپ کی شعوری سطح کو بلند اور آپ کے دماغ کے کینوس کو وسیع کرتا جاتا ہے۔ آپ کے نظریات مسلسل شکست و ریخت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ آپ آج کسی معاملے میں ایک نظریہ قائم کرتے ہیں، اور جیسے جیسے آپ کا مطالعہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، اس نظریے کی ناپختگی آپ پر آشکارا ہوتی چلی جاتی ہے، اور آپ شعوری ارتقاء کی نئی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ ظاہری طور پر آپ کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ اخذ کرنے، یا کسی آفاقی حقیقت کو پانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ مگر ایک غیر محسوس طریقے سے خرد افروزی اور روشن خیالی آپ کی فطرتِ ثانیہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ آپ مختلف علمی اور سماجی معاملات میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں، اسے علم و شعور کی کسوٹی پر پرکھتے رہتے ہیں، اور کسی موقع پر اس کی خامیوں سے آگاہی کی صورت میں آپ کو اپنے ان نظریات پر نظرِ ثانی کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ مطالعہ آپ کے رویوں میں لچک پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتابوں سے محبت اور مطالعے کی عادت کسی قوم کی اجتماعی شعوری سطح کو بلند کرتی ہے۔ اس کے افراد میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی مسائل کا ادراک اور ان کے سدباب کی استعداد پیدا کرتی ہے۔ یہ آپ کی فطرت میں امن پسندی اور رواداری پیدا کرتی ہے۔ علم دوست معاشروں میں ایسے دانشمند افراد جنم لیتے ہیں جن کی رہنمائی میں قوم ترقی کی منازل طے کرتی چلی جاتی ہے۔
بحیثیت قوم ہمارا المیہ ہے کہ ہم کتابوں سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ ایک زوال پذیر قوم کی نشانی ہے۔ تاریخ کے طالب علم بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں برپا ہونے والے انقلابات کی بنیادیں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی تعلیمات پر استوار ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ کہ ہم اپنی اس دوری کا دوش انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو تو دیتے ہیں، مگر کیا ہمارے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ جن ممالک میں یہ ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی اور ہم سے پہلے استعمال ہونی شروع ہوئی، ان کی عوام نے اب تک کتب بینی کی عادت ترک کیوں نہیں کی۔ ہمارا سیاسی اور سماجی شعور آج بڑی حد تک ٹی۔وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا سے ملنے والی معلومات کا مرہونِ منت ہو چلا ہے۔ یاد رکھیے کہ معلومات اور علم دو مختلف اشیاء ہیں۔ علم کے ذریعے معلومات کو پرکھا جا سکتا ہے، مگر صرف انفارمیشن آپ کو نالج نہیں دیتی۔ مسلسل مطالعہ ہی آپ کی ذہنی سطح کو بلند کر کے آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ یہ معلومات آپ کے لیے سود مند ثابت ہو سکیں۔ ادب اور شاعری کسی معاشرے کے روحانی خلا کو پر کرنے اور جمالیاتی پہلو کی تشنگی کو دور کرنے کے لیے لازم ہیں۔ کبھی ہمارے ملتان میں لوہاری النگ پر پرانی کتب کی دکانیں تھیں۔ آج ان کی جگہ فرنیچر اور دیگر اشیاء کی دکانوں نے لے لی ہے۔ قارئین کی عدم دلچسپی کے باعث کتابوں کی دکانیں گفٹ سینٹرز اور اسٹیشنری شاپس میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ کھانے پینے کی دکانوں کی بڑھتی تعداد زوال پذیر قوم کی نشانی ہے۔ ہم کسی ریسٹورنٹ میں کھانے پر تو چار پانچ ہزار ہنس کر خرچ لیتے ہیں مگر چند سو کی کتاب خریدنے کو فضول خرچی تصور کرتے ہیں۔ یاد رکھیں، کتابیں بہترین دوست ہیں۔ کتابوں سے محبت کرنا سیکھیں۔ آج کی دنیا میں علم ہی سب سے بڑا اثاثہ ہے۔
فیس بک کمینٹ