سابق وزیر اعظم نواز شریف کا قافلہ جوں جوں لاہور کے قریب پہنچا اور اور انہوں نے جہلم کے بعد گجرات اور گوجرانوالہ میں جلسے کرتے ہوئے جو باتیں کی ہیں ، ان سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ نواز شریف کا مقصد نہ تو نظام کو ہلانا ہے اور نہ انقلاب برپا کرنا بلکہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے نام پر لگے داغ کو مٹانا چاہتے ہیں۔ یوں تو پاناما کیس کی جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد سے نواز شریف اپنی حکومت کے خلاف سازش کا ذکر کرتے رہے ہیں اور اقتدار سے علیحدہ ہونے اور پنجاب ہاؤس اسلام آباد سے روانہ ہوتے وقت انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اس سازش کا پردہ چاک کریں گے اور ساری کہانی عوام کے سامنے رکھ دیں گے۔ لیکن گزشتہ تین روز کے دوران انہوں نے جو تقریریں کی ہیں ، ان میں عدالت کے فیصلہ کو مسترد کرنے کے علاوہ کوئی خاص بات نہیں کہی گئی۔ سابق وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کا بالواسطہ کہنا تو یہی ہے کہ انہیں خودمختارانہ پالیسیاں اختیار کرنے پر ایک غیر اہم معاملہ کو بنیاد بنا کر نااہل قرار دیاگیا ہے۔ اس بارے میں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں نااہل قرار دینے کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا لیکن اس کے لئے چونکہ پاناما پیپرز میں کوئی شواہد برآمد نہیں ہو سکے تھے ، اس لئے اس فیصلہ کا جواز تلاش کرنے کے لئے وقت صرف کیا جارہا تھا۔ تاہم انہوں نے ابھی تک یہ بتانے کی زحمت نہیں کی ہے کہ انہیں کون لوگ اقتدار سے محروم کرنا چاہتے تھے اور سپریم کورٹ نے آخر کس کے کہنے پر نااہلی کا فیصلہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کا ملک کی پالیسیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے ججوں کو نواز شریف سے کوئی پرخاش ہو سکتی ہے۔ پھر انہیں نواز شریف کو نااہل کرنے کے لئے کیوں تگ و دو کرنا پڑی۔ لاہور کی منزل قریب آنے کے ساتھ ہی لگتا ہے کہ نہ تو نواز شریف اس سوال کا جواب دیں گے اور نہ ہی وہ فوج کی طرف سے دباؤ کا براہ راست ذکر کرنے کا حوصلہ کریں گے۔ وہ اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے ملک کے اداروں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی سیاست میں موجود ہیں اور اپنی نااہلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں واپس آنے کے لئے کوشش نہیں کررہے تو یہ واضح اشارہ بھی دے رہے ہیں کہ اب ان کی جنگ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ دو مقاصد کے لئے تگ و دو کررہے ہیں۔ ایک یہ کہ اس عدالتی فیصلہ کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کے علاوہ انہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے محروم ہونا پڑا ہے ۔ وہ پارٹی پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی جد و جہد کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کو اپنے وارث کے طور پر تیار کرنا شروع کیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ کی وجہ سے مریم نواز کے خلاف بھی ریفرنس دائر ہو رہے ہیں ۔ اس لئے ان کا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہؤا ہے۔ نواز شریف کی تازہ ترین مہم جوئی کا مقصد یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو بدستور مؤثر اور ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کے طور پر قائم رکھیں اور اپنے بعد پارٹی کی قیادت اپنے ہی خاندان کے کسی فرد کو حوالے کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ لڑائی اپنے ہی بھائی شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی سیاسی قوت محدود کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔
نااہلی کے فوری بعد نواز شریف نے یہ اعلان کیا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو عبوری طور پر وزیر اعظم بنایا جائے گا لیکن شہباز شریف لاہور میں ان کی چھوڑی ہوئی نشست پرقومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر ڈیڑھ ماہ بعد ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔ حیرت انگیز طور پر اس وقت اس بات کا جواب دینے اور کسی طرف سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ شہباز شریف کے پنجاب سے مرکز میں جانے کے بعد پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون بنے گا۔ یہ خبریں سامنے آنے لگی تھیں کہ شہباز شریف اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو اپنی جگہ وزیر اعلیٰ بنوانا چاہتے ہیں لیکن نواز شریف باپ بیٹے کو بیک وقت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نہیں بنانا چاہتے۔ اس طرح نواز شریف کو نہ صرف خود اقتدار کی سیاست سے علیحدگی اختیار کرنا پڑتی بلکہ ان کا خاندان بھی اقتدار تک پہنچنے میں ناکام رہتا۔ ایک بار سارے اختیارات شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے کے پاس آنے کے بعد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی غیر متعلق ہو جاتے۔ اس لئے چند ہی روز میں یہ بات واضح ہونے لگی تھی کہ شہباز شریف بدستور وزیر اعلیٰ رہیں گے کیوں کہ 2018 کے متوقع انتخابات سے قبل پنجاب میں کسی تبدیلی کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ گو کہ ابھی تک اس بارے میں کسی تبدیل شدہ پروگرام کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شہباز شریف نہ تو فوری طور پر وزیر اعظم بن رہے ہیں اور نہ ہی ان کی مرضی کا کوئی فرد لاہور کے حلقہ این اے 120 سے انتخاب میں حصہ لے گا۔ کلثوم نواز کی طرف سے اس حلقہ میں کاغذات نامزدگی داخل کروانے سے تصویر اب مزید صاف ہو گئی ہے۔
نواز شریف کی اس بات پر پوری طرح تو یقین کرنا ممکن نہیں ہے کہ وہ اب چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے خواہاں نہیں ہیں لیکن انہیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ فوری طور پر سیاست میں ان کی واپسی کے لئے ابھی سخت سیاسی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کے ذریعے ہی نواز شریف کے لئے سیاست میں واپسی کا راستہ ہموار ہونے کا امکان ہے اور اسی طرح وہ نیب کے ریفرنسز اور بدعنوانی کے الزامات سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہی ان کے حالیہ سیاسی شو آف پاور کا دوسرا مقصد بھی ہو سکتا ہے۔ آئینی ترامیم کے لئے پیپلز پارٹی سے روابط اور آصف علی زرداری کے ساتھ مواصلت کی خبریں سامنے آنے لگی ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ آئین میں مناسب ترمیم کی ضرورت ہے اور اب پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم اس تعاون کے لئے پیپلز پارٹی بھی کوئی سیاسی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرے گی۔ نواز شریف اس حوالے سے کسی معاہدہ کی کوششوں کے دوران پارٹی پر اپنا کنٹرول اور مرکز میں اپنے وفاداروں کی حکومت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے شہباز شریف کو ’ پنجاب کو آپ کی ضرورت ہے ‘ کہہ کر مرکز سے دور رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نواز شریف کا خیال ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی لیڈروں سے اسی صورت میں معاملات طے کر سکتے ہیں اگر وہ خود تمام پارٹی سیاسی امور میں باختیار رہیں گے۔ ’گھر واپسی‘ تحریک کے ذریعے وہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ پارٹی پر کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران بار بار تردید کے باوجود یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے خاندان میں پارٹی اور مرکز میں اقتدار کے حوالے سے کشمکش موجود ہے۔ اور نااہلی کے فیصلہ کے بعد نواز شریف کے لئے ااس اندرونی خاندانی کشمکش میں کامیابی زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔
یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے اس سیاسی صورت میں کیا حکمت عملی اختیار کریں گے۔ کیوں کی بھائیوں میں واضح اور کھلی لڑائی کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) اپنی سیاسی قوت سے محروم ہو جائے گی۔ ایسی حالت میں شہباز شریف کے لئے بھی شاید پنجاب کا اختیار بحال رکھنا ممکن نہ رہے ۔ اس لئے وہ بھی بھائی کو براہ راست چیلنج کرنے سے گریز کریں گے۔ اس کے علاوہ نواز شریف عوام میں شہباز شریف کے مقابلے میں زیادہ اپیل رکھتے ہیں اور ان کا ذاتی ووٹ بنک موجود ہے۔ پنجاب میں اقتدار سنبھال کر شہباز شریف بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی لئے موجودہ حالات میں وہ بھی نواز شریف سے براہ راست تصادم کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ لیکن کیا 2018 کے انتخاب تک یا اس کے بعد بھی یہ صورت حال برقرار رہے گی۔ اس کا انحصار نواز شریف کی مرضی کے مطابق آئینی ترامیم، نیب ریفرنسز کے نتائج اور اپوزیشن کے دباؤ پر ہوگا۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اگر آئیندہ انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی تو اس سے بھی پارٹی پر نوازشریف کی گرفت کمزور ہو سکتی ہے۔ انتخابات جیتنے اور سیاست میں واپسی کا آئینی راستہ ملنے کی صورت میں نواز شریف پارٹی اور ملکی سیاست کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں گے۔ چوتھی بار وزیر عظم بننے کی کوشش بھی عود کر سکتی ہے۔
فی الوقت نواز شریف کا لاہور پہنچنے والا قافلہ دراصل ان کی سیاسی ہزیمت کو کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس دوران وہ پارٹی اور مرکز پر اختیار کو اپنی دسترس میں رکھیں گے۔ تاہم سازش کے اعلان اور اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کے تاثر کا مقصد مظلومیت کی تصویر میں رنگ بھرنے سے زیادہ نہیں ہے۔ درپردہ مواصلت ہورہی ہے اور لگتا ہے کہ نواز شریف ایسی کوئی لائن عبور نہ کرنے کا یقین دلا چکے ہیں جس سے واپسی کے سارے راستے مسدود ہو جائیں۔ ان حالات میں سیاسی مقاصدکے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو تختہ مشق بنانا دراصل بجائے خود ایک ایسی سازش ہے جس کا احساس شاید نواز شریف کو بھی نہیں ہے۔ اسی قسم کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے ہی مشکل پڑنے پر سیاست دان عدالت سے داد رسی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ