ہیرو ورشپ ( Hero Worship) کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر بحث ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ اپنی تاریخ میں سے ہیروز کی تلاش اور ان سے جذباتی لگاؤ انسانی فطرت کا جزوِ لازم بن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی ایک قوم، گروہ یا طبقے کے ہیروز دوسری قوم، گروہ یا طبقے کے لیے ولن بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر اس بات کا تعین کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا ہم اپنی تاریخ میں درست سمت پر کھڑے ہیں، اور وہ تاریخی کردار اور گروہ جن کی شناخت ہمارے ذہن میں اس طرح بٹھا دی گئی ہے کہ ہم ان کی عظمت کے دل و جان سے قائل ہیں، کیا وہ واقعی ہمارے ہیروز ہیں۔؟
برِ صغیر پاک وہند کی دھرتی جس کے ہم باسی ہیں، اتنی قدیم تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ اور پھر وقت کے دھارے میں ایک مشترکہ تاریخ ایک مقام پر آ کر تاریخ کی دو مختلف یعنی پاکستانی اور ہندوستانی تواریخ میں تبدیل ہو جاتی ہے. مگر شائد کسی بھی عقلِ سلیم رکھنے والے شخص کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہو گا کہ کسی سرزمین کے باسیوں کے لیے اس سرزمین پر حملہ آور گروہ، مقامی مزاحمت کاروں کے مقابلے میں لائقِ ستائش سمجھے جائیں۔ مگر کیا ہی ستم ظریفی ہے کہ اس دھرتی کے زمانہءقدیم سے لے کر موجودہ دور تک کے تاریخی شعور میں ہم ایسے ہی سنگین تضادات کا شکار نظر آتے ہیں۔ہماری تاریخی کتب بیرونی حملہ آور آریا گروہوں کی سفید رنگت، بلند قدوقامت، سنہرے بالوں اور تاریخی عظمت کی تصویرکشی تو کرتی نظر آتی ہیں، مگر موہنجوڈارو اور ہڑپہ جیسے تاریخی اور تہذیبی ورثے کی مالک کول، بھیل اور دراوڑ قوموں کا تذکرہ ضمنی طور پر ہی نظر آتا ہے، جو اِن حملہ آوروں کے تسلط کے خلاف ایک عرصہ تک مزاحم رہیں۔ کیا ہمیں اپنی تاریخ میں سیاہ رنگت اور چپٹی ناک والے سرزمینِ ہند کے ان سپوتوں کےمزاحمتی کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں جن کی آئندہ نسلوں کو آریا حملہ آوروں نے شودر قرار دے ہمیشہ کے لیے اچھوت قرار دے دیا۔
ہمارے یہاں کئی بچوں کے نام سکندرِ اعظم کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ کیا ہمارا ہیرو حملہ آور سکندر تھا، یا وہ راجہ پورس جس کی بہادری کو سکندر بھی تسلیم کرتا نظر آتا ہے۔ اور ملتان میں اس وقت آباد ملوئی قوم کے متعلق کتنے لوگ جانتے ہیں جنہوں نے ملتان کے محاصرے کے دوران سکندر کی حملہ آور فوج کے خلاف شدید مزاحمت کی، اور جن کے زہریلے تیر سے پھیلنے والے زہر کے اثر سے بیمار ہو کر سکندر راہیءملکِ عدم ہوا تھا۔مشرقِ وسطیٰ سے حملہ آور بادشاہوں کو تو ہماری تاریخی کتب میں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے مگر یہاں کے باسی قبائل کی ان کی قائم کردہ سلطنتوں کے خلاف مزاحمت کو یورشوں کا نام دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہیرو وہ صوفی تو ہو سکتے ہیں جو یہاں آ کر بسے تو انہوں نے یہیں کی زبان وثقافت کو اپنا لیا۔ یہاں کے لوگوں کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھا اور یہاں کی مقامی زبانوں کو انسان دوستی اور معرفتِ الٰہی سے لبریز کلام کے تحفے بخشے اور مذہب و ملت کی تفریق کیے بغیر انسانیت کی خدمت کی۔ بجائے ان مذہبی عالموں کے جو اپنی غیرملکی شناخت پر فخر کرتے رہے اور حکمرانِ وقت کو یہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ہم اپنے ہیروز کی فہرست مرتب کرتے ہوئے برطانوی استبداد کے خلاف جدوجہد کرنے والے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں، رائے احمد خان کھرل نظام لوہار سردار جگت سنگھ ورک عرف جگا، اور اس جیسے اہم کرداروں کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا انگریز حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہندو، مسلمان،عیسائی اور سکھ مل کر شامل نہیں رہے۔ تو کیا یہ انصاف ہے کہ ہم ان میں سے بھی صرف چند مسلم شخصیات کو چن کر دیگر سب کو نظرانداز کر دیں۔ کیا ان شخصیات کے تذکرے کے بغیر ہماری تحریکِ آزادی کی تاریخ مکمل ہو پائے گی۔ ہمارے ہیرو ایسے ہونے چاہییں جنہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے خود کو وقف کیا ہو۔ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی جن کا مطمعءنظر ہو۔ جو امن، خوشحالی، ترقی اور انسان دوستی کے استعارے کے طور پر یاد کیے جاتے ہوں ہوں۔ جنہوں نے آمریت، کرپشن، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی جدوجہد میں کردار ادا کیا ہو۔ جنہوں نے وقتی مصلحتوں اور اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مظلوموں، کمزوروں اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہو۔ جو تاریخ کے دھارے میں درست سمت میں کھڑے نظر آئیں۔ قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ میں اور آج کے وقت بھی ہمیں اپنے ہیروز کا تعین کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اپنے مستقبل کے سفر کے لیے درست سمت کا تعین کرسکیں۔
فیس بک کمینٹ