پاکستان کے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو اوسلو نوبل سنٹر میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ وہ یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کے لئے ایک پاکستانی تنظیم کی دعوت پر اوسلو آئے ہیں۔ جمعہ کی شام کو اوسلو کی تقریب میں اس وقت بد مزگی پیدا ہوئی جب پرویز مشرف کی تقریر کے بعد وہاں موجود بلوچ نوجوانوں نے ایک جمہوری ملک میں پرویز مشرف کی آمد اور بظاہر امن کے حوالے سے گفتگو کے خلاف احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق فوجی آمر، نواب اکبر بگٹی کے علاوہ متعدد بلوچ سیاسی کارکنوں کے قتل میں ملوث ہیں ۔ ہنگامہ آرائی کی وجہ سے پرویز مشرف سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہے اور منتظمین سیکورٹی اہل کاروں کی مدد سے انہیں وہاں سے نکال کر لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ پرویز مشرف پر پاکستان میں پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے الزام میں مقدات زیر سماعت ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آئین پاکستان سے غداری کے الزامات کا سامنا بھی کررہے ہیں۔
پرویز مشرف پاکستان کے عدالتی نظام کے مفرور ہیں۔ ان کی گرفتاری اور جائیداد قرقی کے کئی عدالتی احکامات جاری ہو چکے ہیں لیکن وہ ان عدالتی حکم ناموں کی پرواہ کئے بغیر دبئی میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ناروے جیسے جمہوریت پسند اور قانونی حکمرانی کے علمبردار ملک میں پرویز مشرف جیسے مفرور اور جمہوریت دشمن شخص کی آمد شدید تشویش اور بے چینی کا باعث ہونی چاہئے۔ ناروے میں پاکستانیوں کے متعدد لیڈروں اور تنظیموں نے سابق فوجی آمر کو ناروے مدعو کرنے اور امن پر ان کی گفتگو کا اہتمام کرنے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ پرویز مشرف کا خیال ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی پر فریب باتوں کے ذریعے ساتھ ملا کر پاکستانی سیاست میں اپنے لئے جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اسی لئے انہوں نے ناروے جیسے چھوٹے ملک کا انتخاب کیا تاکہ وہ اپنے مقصد کے لئے راہ ہموار کرسکیں۔ تاہم اوسلو میں جمعہ کے روز انہیں شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا۔
جمعہ کی شام کو اوسلو نوبل سنٹر میں تقریب کا اہتمام ہائیرے کے سیاست دان اور متحرک نارویجئن پاکستانی عامر جاوید شیخ نے کیا تھا۔ عامر شیخ 14 اگست کمیٹی کے علاوہ ’ ڈائیلاگ برائے امن‘ کے نام سے ایک فاؤنڈیشن بھی چلاتے ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام وہ مختلف شخصیات کو ناروے بلاتے رہتے ہیں۔ پرویز مشرف کو ناروے آنے کی دعوت اگرچہ عامر شیخ نے نہیں دی تھی لیکن وہ اوسلو میں ان کی میزبانی میں پیش پیش رہے ہیں۔ نوبل سنٹر میں تقریب کا اہتمام بھی عامر شیخ کی فاؤنڈیشن ’ڈائیلاگ برائے امن‘ نے ہی کیا تھا۔ لیکن عام پاکستانیوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے ناروے کے نوبل انسٹی ٹیوٹ یا نوبل سنٹر نے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ البتہ پرویز مشرف کے لیکچر کے لئے نوبل سنٹر کا ہال کرائے پر حاصل کیا گیا تھا جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ پرویز مشرف کی میزبانی میں نوبل کمیٹی براہ راست یا بالواسطہ طور سے ملوث ہے۔
فوج کے سربراہ کے طور پر پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں منتخب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا اور انہیں طیارہ اغوا کیس میں سزا بھی دلوائی تھی۔ تاہم بعد میں سعودی عرب کی مداخلت کی وجہ سے نواز شریف سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے پرویز مشرف انتخاب کروانے اور حکومت منتخب نمائییندوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 2013 میں نواز شریف تیسری بار ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی حکومت نے 2007 میں آئین معطل کرنے کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران ان کے خلاف بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے الزام میں بھی مقدمات کی سماعت ہورہی تھی۔
فوج اپنے سابق سربراہ کے خلاف عدالتی کارروائی سے خوش نہیں تھی ۔ سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کے دباؤ پر پہلے سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم جاری کیا پھر اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے انہیں علاج کے لئے بیرون ملک سفر کی اجازت دے دی۔ اس طرح وہ مارچ 2016 میں ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ وہ یہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ وہ دو ہفتے کے بعد واپس آکر اپنے خلاف سب الزامات کا سامنا کریں گے لیکن گزشتہ ڈیڑھ برس سے وہ دبئی میں مقیم ہیں۔ نواز شریف کی معزولی کی بعد پرویز مشرف کو ایک بار پھر یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ پاکستان واپس جا کر سیاسی کامیابی کا سفر شروع کر سکتے ہیں۔
ناروے میں ایسے مجرمانہ کردار کے حامل شخص کی آمد اور یہاں قائم پاکستانی تنظیموں کی طرف سے قانون سے مفرور ایک شخص کی میزبانی افسوسناک واقعہ ہے۔ خاص طور سے ملک کی حکمران جماعت ہائیرے کے ایک متحرک پاکستانی نژاد لیڈر عامر شیخ کی طرف سے اس عمل میں تعاون اور سرگرمی نارویجئن سیاست کے حوالے سے بھی سنگین سوالات سامنے لاتی ہے۔ ناروے ایک جمہوری اور قانون پسند معاشرہ ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتیں انسان دوستی اور جمہوری روایات کو مقدم سمجھتی ہیں۔ اس ملک میں کئی دہائیوں سے مقیم تارکین وطن اگر ان اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں تو یہ رویہ پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے بھی شبہات اور تعصبات میں اضافہ کا سبب بنے گا
(بشکریہ: کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ