یقین مانیے تبدیلی بہت ضروری ہے۔ ایک طویل عرصے کا جمود عوام میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔ عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے تبدیلی آتی رہنی چاہیے۔ تبدیلی سے پیدا ہونے والی ہلچل نئی امیدوں کو جنم دیتی ہے۔ پرانے خوابوں کی تعبیر سے مایوس ہو جانے والی آنکھیں نئے سپنے سجانے لگتی ہیں۔ اور اسی طرح سسٹم چلتا رہتا ہے۔ تبدیلی ناگزیر ہو چکی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی عوام کی امنگوں کا یہ بوجھ انہی ناتواں کاندھوں پر تھا۔ سو ہم نے جو کرنا تھا وہ کیا۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مگر یہ دھیان رکھنا بھی ضروری تھا کہ تبدیلی ایسی نہ ہو کہ کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ تبدیلی کا کنٹرول میں رہنا ضروری ہے۔۔ تبدیلی اتنی ہی آنی چاہیے جتنی آسانی سے ہضم ہو سکے۔ تبدیلی کی خواہاں اکثریت کو بھی جشن منانے کا سامان میسر آ سکے اور تخت گرائے اور تاج اچھالے جانے کی نوبت بھی نہ آنے پائے۔ یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ سسٹم خطرے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ سسٹم ہے تو ہم ہیں۔ چار دن اچھا تماشا رہے گا۔ عوام کا دل بہلا رہے گا۔ مسندِ اقتدار پر نئے چہرے۔ بیرونِ ملک سے ملتے نئے قرضے۔ نئی حکومت کے نئے اقدامات۔ نئے دعوے۔ نئی اپوزیشن۔ نئے مطالبات۔ نئے الزامات اور نئے حالات۔ نیا ماڈل نیا پاکستان۔ کل کے ہیرو آج کے ولن اور کل کے ولن آج کے ہیرو۔ کہانی کا پلاٹ وہی رہے مگر زیبِ داستاں کے لیے کردار آگے پیچھے کرنے ضروری ہوا کرتے ہیں، اور موقع کی مناسبت سے کچھ نئے کردار بھی شامل کرنے پڑتے ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں قطعاً عار نہیں کہ ہمیں سب کچھ کنٹرول میں پسند ہے۔ آخرکو ڈسپلن بھی کوئی چیز ہے۔ جمہوریت ہمیں بھی پسند ہے، مگر کنٹرول میں رہے تو اور بھی خوبصورت لگتی ہے۔ مذہب بھی تو ہمیں کنٹرول میں رہنا اور سوال نہ کرنا سکھاتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ ڈسپلن اور بلا چون و چراں سرِ تسلیم خم کر دینے کی یہ عادت زندگی کے سب شعبوں میں نافذ کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری ٹھہری۔ مذہب سے یاد آیا کہ یہ مذہب بھی بہت کارآمد چیز ہے۔ ایک ایسا ہتھیار جس کا دانش مندانہ استعمال آپ کو اِن کنٹرول رکھتا ہے۔ تمام مذاہب انصاف کا درس دیتے ہیں۔ اس لیے انصاف کا بول بالا ہونا اشد ضروری ہے۔ جب تک "انصاف کا ترازو” ہمارے ہاتھ میں ہے، ہم کسی پلڑے کو جھکنے نہیں دیں گے۔ توازن بنائے رکھنا بہت ضروری ہے۔ آگ بھی ضروری ہے مگر آگ کے لیے پانی کا ڈر بنائے رکھنا بھی ضروری ہے۔ الیکشن بھی ضروری ہیں مگر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور مچانے کی گنجائیش رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہارنے والوں کا کہیں کہیں جیتنا بھی ضروری ہے اور جیتنے والوں کا کہیں کہیں ہارنا بھی ضروری ہے۔ ہارنے والوں کو بھی یاد رہنا چاہیے کہ ہرانے والا کون تھا، اور جیتنے والوں کو بھی یاد رہنا چاہیے کہ جتانے والا کون ہے۔
میڈیا کی اہمیت سے آج کون انکار کر سکتا ہے۔ مگر اس کا کنٹرول میں رہنا تو ازحد ضروری ہے کہ معصوم ذہنوں کو پراگندہ نہ کرنے پائے۔ ہاں یہ سوشل میڈیا بہت بے لگام ہے۔ مگر آخر چین اور ایران جیسے ممالک نے بھی تو اسے لگام ڈال ہی لی ہے۔ اور اب تو مملکتِ خداداد میں بھی چائنا ماڈل آیا ہی چاہتا ہے۔ کبھی ادب کو بھی کنٹرول میں رکھنا پڑتا تھا۔ مگر اب کھل کر لکھیں۔ انہیں پڑھتا ہی کون ہے۔ سوچوں پر پہرے لگانا آسان نہیں، مگر اتنا کنٹرول ہونا تو بنتا ہے نا کہ سوچنے والا کہتے اور لکھتے ہوئے سو مرتبہ سوچنے پر مجبور ہو۔ کچھ باتیں کہنے کی نہیں، صرف محسوس کرنے کی ہوتی ہیں۔ آخر سیلف سنسرشپ بھی کوئی چیز ہے۔ خود احتسابی کا یہ عمل "بغیر کسی ڈر اور خوف کے” جاری رہنا چاہیے۔ ہماری خدمات کی ضرورت آپ کو ہمیشہ رہے گی۔ نیا پاکستان بھی کبھی پرانا ہو جائے گا، اور اسے پھر سے نیا کرنے کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی کاندھوں پر ہو گی نا۔
فیس بک کمینٹ