چہرے پر رونق، آنکھوں میں فتح مندی کی چمک اور ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ۔ دوسری جانب میزبان سرتاپا عاجزی اور برخورداری کی تصویر بنے، ہر سوال کے سابقے اور لاحقے کے طور پر "سر” کا اضافہ کرتے ہوئے۔ یہ تھا کل ایک ٹیلی وژن چینل پر ہمارے ایک آرمی چیف اور سابق سر براہِ مملکت کا دبنگ انٹرویو (قارئین آرمی چیف کے ساتھ سابق کا سابقہ استعمال نہ کرنے کو راقم کی جانب سے ادارے کا وقار مجروح نہ ہونے دینے کی مخلصانہ کوشش پر محمول کریں، اور اس سے طنز کا کوئی پہلو اخذ کرنے سے حتی الامکان احتراز برتیں)۔ خوشی تھی کہ چھپائے نہ چھپتی تھی۔ جنرل صاحب کی گفتگو کے مجازی معنوں سے ہٹ کر، حقیقی معنی سمجھنے کی سعی کی جائے، تو تان اسی بات پر ٹوٹتی تھی کہ "دیکھا میں نہ کہتا تھا۔ دیکھ لیں میرے سارے اقدام درست تھے۔ یہ سیاستدان تو سب چور ہیں” اور میزبانِ محترم ستائش اور عقیدت بھری نظریں لئے، دست بوسی کے مشتاق تھے، مگر اسلام آباد اور دبئی کا درمیانی فاصلہ رسمِ عقیدت کی فوری ادائیگی کی راہ میں حائل تھا۔
محترم جنرل صاحب آج بھی اسی جذبہء ایمانی اور حبِ الوطنی کا پیکر نظر آئے، جس کی ہم سویلینز میں ہمیشہ ہی کمی رہی ہے۔ جب انہوں نے کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ "میں ایک فوجی ہوں” تو ہم اندازہ کر سکتے تھے کہ یہ کہتے ہوئے انہیں اپنی نازک کمر سے اٹھتی درد کی لہروں کو برداشت کرنے میں کس قدر ضبط کا مظاہرہ کرنا پڑا ہو گا۔
انہوں نے فرمایا کہ "اس حکومت کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہی ہے، یہ صرف سترہ فیصد ووٹ لے کر عوام کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں”۔ شائد میزبان یہ سوال کرنے سے صرفِ نظر کر گئے کہ جنرل صاحب، وہ کون سا عوامی مینڈیٹ تھا جس کی لاج رکھنے کے لئے آپ کو عمرِ عزیز کے نو قیمتی برس مادرِ وطن کی خدمت میں صرف کرنے پڑے۔ مزید ارشاد ہوا کہ "ایسے مواقع آتے ہیں جب آپ ملک یا آئین میں سے کسی ایک چیز کو قائم رکھ سکتے ہیں”۔ اس کوتاہی پر یقیناً آئین ساز کبھی بریّ الزمّہ قرار نہیں دیے جا سکتے کہ انہوں نے حقیقت پسندی کا ثبوت نہ دیتے ہوئے آئین میں آرمی چیف کے سربراہِ مملکت بننے کی گنجائش نہیں رکھی، ورنہ یہ آئین کی معطلی کے الزام کی بلا تو سر سے ٹلتی، اور آئین بھی مجفوظ رہتا۔
مزید جب انہوں نے فرمایا کہ یہ سیاستدان تو چور ہیں۔ انہوں نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے دبئی اور لندن میں جائیدادیں بنا رکھی ہیں، تو آدابِ میزبانی نے میزبانِ محترم کو یہ سوال پوچھنے سے بھی باز رکھا، کہ کیا قطری شہزادے کے ذریعے اور دبئی کے پرنس کے ذریعے ہونے والی سیٹلمنٹ میں کچھ فرق ہوتا ہے، یا پھر اپنے ملک کے شہریوں کو ڈالروں کے عیوض امریکی حکام کے حوالے کرنے کا اعتراف کسی جے۔آئی۔ٹی۔ کی تحقیق کا متقاضی تو نہیں؟
مگر یہ اینکر حضرات بھی شرارت سے باز نہیں آتے۔ جب جنرل صاحب نے اپنی مخصوص سادہ لوحی کے تحت تکرار کی”ہاں مجھے شرم نہیں ہے۔ مجھے شرم نہیں ہے” تو میزبان ایک شرارت بھری بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس جملے کی تصحیح کرانے سے کنی کترا گئے۔
فیس بک کمینٹ