ایک مافوق الفطرت واقعہ سے متاثر ہوکر پچھلے ہفتہ میں نے آپ کو ایک قصہ سنایا تھا۔اب آپ مافوق الفطرت واقعہ سن لیجئے۔واقعہ سن کر ہر ذی شعور اور ذی عقل انسان کی طرح لغو سمجھ کر آپ اس مافوق الفطرت واقعہ کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ ایک ایسا شخص جس کا فعل اس کے قول کی طرح جھوٹا ہوتا ہے۔ آپ مافوق الفطرت قصے کہانیاں تب قبول کرتے ہیں جب ان قصے کہانیوں کا راوی نیک فطرت ، نیک خصلت، نیک سیرت ہو۔ وہ ہماری طرح چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں ووٹ ڈالنے والے احمقوں کی قطار میں کھڑا ہو ا ہو ۔ آپ کی نیک نامی کا ڈھنڈورا دنیا تب پیٹتی ہے، جب آپ ببول کی ٹہنی پر لگے ہوئے بیروں کی باتیں سناکر لوگوں کو حیران کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔۔ جانتا ہوں آپ کی نظروں میں میری ساکھ اچھی نہیں ہے۔ مافوق الفطرت واقعہ سن کر آپ مجھے جھٹلا دینگے ۔ جھوٹا تو میں ویسے ہی بدنام ہوں۔ مگر پھر بھی مافوق الفطرت واقعہ سن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ اللہ سائیں کا نام لیں اور مافوق الفطرت واقعہ سنیں ۔ آپ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ آدھی رات کاوقت تھا ۔ میں خیالی پلاؤ پکانے کی مختلف ترکیبیں سوچ رہا تھا ۔ میں نے دروازے پر دستک سنی ۔ اس وقت میں انڈا پلاؤ بنانے کی ترکیب کو حتمی شکل دے چکا تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ میرا چرسی پڑوسی کا جن ہوگا۔ وہ جب بھی رات گئے ٹن ہوکر لوٹتا ہے تب میرے گھر کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ کر دستک دیتا ہے۔ اتنے میں تیسری مرتبہ میں نے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سنی۔ میں نے آگے بڑھ کر دروازے کے دونوں پٹ کھول دیے۔ میرے سامنے آدم کھڑا ہوا تھا۔ میرے اوسان خطا ہوگئے۔ گھبرا کر میں دوچار قدم پیچھے ہٹ گیا۔کل ہی تو آدم کے مرجانے کے بعد میں نے اس کے جنازے کی نماز پڑھی تھی۔ اندر آکر آدم نے دروازے کے کواڑ بند کردئیے۔ میں ڈر گیا ۔الٹے پیر آدم سے دور ہٹتے ہوئے میں دیوار سے جالگا۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ نماز پڑھنے کے بعد میں دیگر دوستوں کے ساتھ آدم کا جسد خاکی دفن کرنے کے لیے قبرستان نہیں گیا تھا ۔ مجھے ایک اہم کام کے لیے دفتر جانا تھا ۔ کام اگر معمولی نوعیت کا ہوتا تو میں کام کاج چھوڑ کر آدم کی تدفین کے لیے قبرستان ضرور جاتا۔ مگر کام بہت اہم تھا میں شوشا چھوڑنے والے ایک سرکاری ادارے میں کام کرتا ہوں۔
میرا کام ہے شوشے گھڑنا اور شوشے چھوڑنا۔جب بھی حکومت ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہے تب لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے مجھے نت نئے شوشے گھڑنے پڑتے ہیں۔ نماز پڑھنے کے بعد میں نے آدم کی میت کو جھک کر چھوا تھا ، اور پھر شوشے بنانے کے لیے میں دفتر روانہ ہوگیا تھا۔ شوشے گھڑنے میں، میں اس قدر مصروف ہوگیا تھا کہ کسی دوست سے آدم کی تدفین کے بارے میں پوچھنا بھول گیاتھا۔ ایسے میں آدم کو اپنے سامنے دیکھ کرمیں ڈرگیا۔ اگر کبھی آپ کی ملاقات ایسے کسی شخص سے ہوجائے جو مرچکا ہو، تب آپ کیسا محسوس کریں گے؟ ڈریں گے نہیں ؟حیرت مجھے تب ہوئی جب میں نے دیکھا کہ آدم کفن میں لپٹا ہوا نہیں تھا ۔ اس نے قمیض اور پتلون پہن رکھی تھی۔آدم نے پوچھا ، ’’ کیا سوچ رہے ہو؟‘‘۔میں نے ڈر کے مارے ہکلاتے ہوئے کہا ۔’’ سوچ رہا ہوں کہ تم میرے مرحوم دوست آدم ہو ، یا پھر آدم کے جیسے کوئی اور ہو۔‘‘
آدم نے کہا، ’’ میں تیرا دوست آدم ہوں‘‘۔
میں نے حیرت سےپوچھا ،’ ’ تم تو کفن میں لپٹے ہوئےتھے!‘‘آدم نے کہا ، ’’ کفن میں نے اسپتال کے سرد خانے میں اتار دیاتھا۔‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا، ’’ تمہاری تو تدفین ہوئی تھی!!‘‘’’ قبرستانوں میں ایک قبر کی جگہ باقی نہیں بچی تھی۔ اور اگر کسی قبرستان میں جگہ تھی بھی تو اس کی بولی ایک لاکھ سے شروع ہوتی تھی ۔‘‘ آدم نے کہا ۔’’ وارثوں نے مجھے ایک اسپتال کے سرد خانے میں امانت کے طور پر رکھوایا اور خود شہر سے دور قبر کے لیے تھوڑی سی جگہ کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ سردخانے میں مجھے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ اس لیے میں سرد خانے سے نکل آیا۔‘‘
ساٹھ منزلہ عمارت نما قبرستان میں دس دس فٹ کے چھ ہزار کمرے ہونگے ۔ایک ایک کمرے میں دس پختہ قبروں کی گنجائش ہوگی۔ اس طرح مجوزہ ایک ایک عمارت میں ساٹھ ہزار اللہ سائیں کو پیارے ہوجانے والوں کے لیے تدفین کی گنجائش ہوگی‘‘۔سوچ رہا ہوں مجھے یہ شوشا چھوڑنا چاہئے، یا درگزر کردوں۔ محبِ وطن ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ دیکھا دیکھی کہیں پاکستانی نژاد کھرب پتی گورکن عمارتوں میں قبرستان بنانے کے لیے سچ مچ پہنچ نہ جائیں۔
مرے ہوئے لوگ ہماری سوچ کی آواز سن سکتے ہیں۔ آدم نے کہا ۔’’ میں یہی چاہتا ہوں کہ پاکستانی نژاد کھرب پتی گورکن آئیں اور پاکستان میں جدید قسم کے قبرستانوں کا رواج ڈالیں‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ