مہذب ملکوں اور معاشروں میں کسی مخصوص علاقے کی آبادی کو مختلف بنیادی سہولیات کے حوالے سے اعداد و شمار کے ساتھ اس طرح سے نتھی کر دیا جاتا ہے کہ متذکرہ علاقے کے ہر شہری اور اس کے بچوں کی تعداد کو متعلقہ سہولیات کے ساتھ تقسیم کر کے دیکھا جائے تو ایک ایسے کلیے‘ قاعدے یا قانون کی شکل سامنے آتی ہے جس کی پابندی اور فراہمی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہوتا، فرض کیجیے اگر کسی شہر کی آبادی ایک لاکھ ہے تو اس کے لیے لازمی طبی سہولیات میں آبادی اور فاصلے کے حساب سے اسپتالوں کی تعداد طے ہو گی مثال کے طور پر ایک مربع کلومیٹر یا دس ہزار کی آبادی کے تناسب سے ایک اسپتال یا میڈیکل یونٹ کا قیام لازمی ہو گا جس میں مریضوں کے لیے بستروں‘ ڈاکٹروں اور علاج اور معائنے کی طے اور منظور شدہ مشینوں کی تعداد اور مطلوبہ ادویہ کی فراہمی حکومت اور انتظامیہ کی ایسی ذمے داری ہے جو ہرصورت میں ادا کی جائے گی اور ہر سرکاری یا کمیونٹی اسپتال میں متعلقہ علاقہ کے شہریوں کا علاج فوری اور فری ہو گا جب کہ ان کے ایمرجنسی شعبوں میں یہ سہولت کسی بھی مریض کو مہیا کی جاتی ہے ۔ مصدقہ ڈیٹا‘ تحقیق‘ تجربے اور تجزیے کی مدد سے اس نظام کو ہمہ وقت اپ ٹوڈیٹ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر کام قاعدے قانون اور وقت کے مطابق ہوتا ہے اور کسی غیر معمولی یا بہت بڑی حادثاتی یا قدرتی آفت سے قطع نظر ایمرجنسی کے شعبوں میں بھی بدنظمی کی صورت حال ایک محدود وقت کے لیے بھی شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔
اس صورت حال کا تیسری دنیا اور بالخصوص وطن عزیز کے اسپتالوں اور موجود طبی سہولیات سے موازنہ کیا جائے تو یہ سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ موازنے کے لیے تمام زیر بحث چیزوں کا دونوں طرف اور اپنی اپنی جگہ پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مردم شماری‘ پلاننگ ‘ نیت‘وسائل اور صلاحیت وہ لازمے ہیں کہ جن کے بغیر کسی معاشرے کی مطلوبہ ضروریات کا نہ تو صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کو پورا کرنے کا کوئی ایسا طریقہ یا نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔
جس میں رسد اور طلب کے درمیان کسی قسم کا توازن یا سمت نما متعین اور وضع ہو سکے، آبادی کے بے ہنگم اور غیر مرتب پھیلاؤ کے باعث ہمارے شہر جغرافیائی طور پر اپنے مضافات کو مسلسل کھاتے چلے جا رہے ہیں ۔ اردگرد کے باغات جنگل‘ زرعی علاقے‘ غلے چارے اور تازہ سبزیوں کے مراکز تیزی سے رہائشی آبادیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں جس سے وسائل میں مسلسل کمی اور مسائل میں لگا تار اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
نئی آبادیوں میں پرائیویٹ سطح پر کاروباری نقطہ نظر سے بنائے گئے طرح طرح کے طبی مراکز اور تعلیمی ادارے تو کسی نہ کسی مشکل میں بن جاتے ہیں مگر درجنوں طرح طرح کے براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس دینے کے باوجود عام شہری کو ہر دو طرح کی بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں جو اس کا حق اور سرکار کا فرض ہیں۔ گاؤں اور قصبوں میں قائم کیے گئے طبی مراکز‘ ڈسپنسریاں اور سول اسپتال تعداد میں نہ صرف بے حد کم ہیں بلکہ ان میں موجود سہولیات اور ادویہ کی فراہمی اور ڈاکٹر حضرات کی حاضری ‘ غیر حاضری کی وجہ سے ان کا معیار اس قدر پست اور ناقابل اطمینان ہے کہ ان کا ہونا نا ہونا ایک جیسا ہو گیا ہے اور یوں مقامی سطح پر قابل علاج مریضوں کا رخ بھی ان بڑے شہروں کی طرف مڑ گیا ہے۔
جہاں پہلے ہی آبادی کے مسلسل دباؤ کے باعث سہولتیں اور وسائل نہ صرف سکڑتے جا رہے ہیں بلکہ ان میں اضافے کے لیے بھی کوئی پلاننگ نہیں کی جا رہی ۔کسی نے بتایا کہ صرف لاہور میں گزشتہ تیس برس کے دوران درجنوں کے حساب سے بڑی بڑی رہائشی اسکیموں کو اجازت نامے دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے اس کی آبادی 50 لاکھ سے بڑھ کر مبینہ طور پر 90 لاکھ تک پہنچ گئی ہے مگر اس اضافی آبادی کے لیے سرکاری سطح پر ایک بھی باقاعدہ اور بڑا اسپتال تعمیر نہیں ہوا جو چند اسپتال اس سارے بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں ان میں سے چار بڑے تدریسی اسپتالوں یعنی میو‘ سروسز‘ شیخ زائد اور جناح کو مجھے نسبتاً زیادہ قریب سے اور قدرے تفصیلی انداز میں دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
میڈیا میں سینئر ڈاکٹرز اور پروفیسرز کی پرائیویٹ پریکٹسز‘ اسپتالوں کی حالت زار ‘ عملے کی بدمزاجی ‘ وسائل کی کمی‘ نوجوان ڈاکٹروں کے مظاہروں اور مریضوں کی دربدری کی باتیں تو بہت اچھالی جاتی ہیں(جن میں جزوی صداقت بلاشبہ موجود ہوتی ہے) مگر ان کے مثبت پہلوؤں‘ خدمات اور کارکردگی اور ان کو درپیش سنگین اور حقیقی مسائل پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارے حاکم طبقوں کے افراد سرکاری تو کیا مقامی پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی علاج کرانے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ سو مجبوری کے عالم میں بھی ان کی دوڑ ان اسپتالوں کے vvip حصوں تک ہی محدود رہتی ہے۔
چند فیصد مریض جو پرائیویٹ علاج کا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں ان کی حد تک بھی گذارہ ہو جاتا ہے کہ دونوں صورتوں میں مطلوبہ فنڈز مل جاتے ہیں۔ جب کہ اصل میں جن شعبوں میں توسیع‘ وسائل‘ توجہ اور بہتری کی ضرورت ہے اس طرف نہ تو ترقی یافتہ معاشروں کے تھیوریکل انداز کو برتا جاتا ہے اور نہ ہی عملی صورت حال کے تجزیے سے کام لے کر کوئی بہتری کی صورت نکالی جاتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ برسوں پہلے کی ضروریات کے ایک اٹکل پچو اندازے کے تحت ان اسپتالوں کے شعبہ حادثات‘ جنرل وارڈز اور لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ کی space اور capacity کا تعین کیا گیا تھا جو عملی طور پر اس وقت کی ضروریات کے لیے بھی ناکافی تھا۔ اب جب کہ آبادی کے بے تحاشا بڑھنے اور دیہی علاقوں سے آنے والے مریضوں کی وجہ سے یہ وسائل دردناک حد تک محدود اور کم ہو گئے ہیں نہ تو نئے اسپتال بنائے جا رہے ہیں اور نہ ہی پہلے سے موجود ان شعبوں کی زمینی وسعت اور بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی لازمی اور فوری نوعیت کے ٹیسٹوں کے لیے مطلوبہ مشینوں کی تعداد بڑھانے اور انھیں چالو رکھنے کے لیے کچھ سوچا یا کیا جا رہا ہے ۔
میں نے اپنی آنکھوں سے بارہا شعبہ حادثات میں ایک ایک بستر پر تین تین شدید زخمی اور بیمار مریضوں کو پڑے دیکھا ہے جن کے ساتھ لواحقین کا ایک لاؤ لشکر ‘ ڈاکٹروں تک کو گزرنے کا رستہ نہیں دے رہا ہوتا جب کہ وارڈوں کے باہر مریض برآمدوں میں رل رہے ہوتے ہیں اور ہر طرف ایک افراتفری سی مچی نظر آتی ہے لیکن لواحقین کے گلے شکوؤں اور مریضوں کی بے بسی کے اس عالم میں بھی عملے سمیت جونیئر اور سینئر ڈاکٹر محنت اور ذمے داری سے ان تھک انداز میں کام کرتے بھی نظر آتے ہیں، ان کا کہنا یہی ہے کہ ہم اپنی بساط سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس شعبے کی عمارت کو بڑا کرنا اور بستروں کی تعداد کو بڑھانا ان کے اپنے بس کی بات نہیں ہے، سو یہ کام جن کے کرنے کا ہے ان کو ہی کرنا چاہیے اور اس سے متعلق تنقید اور مذمت بھی انھی لوگوں کی کی جانی چاہیے کہ وہ اس کے پورے طور پر حق دار نہ بھی ہوں تب بھی ذمے داری تو انھی کی بنتی ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ