مخصوص نشستوں میں سپریم کورٹ فل بنچ کے آٹھ اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد وزیر قانون نذیر اعظم تارڑ نے واضح کیا ہے کہ اس فیصلے سے مخصوص نشستوں کے بارے میں قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہوئی۔ کیوں اس دوران الیکشن ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے تحت کسی پارٹی میں شامل ہونے کے بعد ارکان اسمبلی اسے چھوڑ کسی دوسری پارٹی میں شامل نہیں ہوسکتے۔
واضح رہے سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں نے تحریک انصاف کو مخصوص سیٹوں میں حصہ دینے کا حکم دے رکھا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے الیکشن کمیشن پر ایک خط میں واضح کردیا تھا کہ انتخابی ایکٹ میں ترمیم کے بعد تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں اور نہ ہی سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہوسکتا ہے کیوں کہ پارلیمان کا منظور کیا ہؤا قانون کسی بھی عدالت پر بالادستی رکھتا ہے۔ اسی دوران میں اکثریتی ججوں نے ایک سخت نوٹ میں الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ فوری طور سے تحریک انصاف کو مخصوص سیٹیں تفویض کی جائیں ۔حکم میں واضح کیا گیا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کرتا تو اس کے ’نتائج‘ ہوں گے۔
البتہ اسپیکر کا خط آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے خاموشی اختیار کی ہے اور سپریم کورٹ کا حکم بدستور ہوا میں معلق ہے۔ الیکشن کمیشن کو خط لکھنے کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں نئی پارٹی پوزیشن جاری کی ہے جس میں تحریک انصاف کے 80 ارکان قومی اسمبلی کو سنی اتحاد کونسل کا رکن قرار دیا گیا ہے۔ اسپیکر کے اس حکم کے مطابق اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کا کوئی وجود نہیں ہے۔ واضح رہے تحریک انصاف کے ارکان پارٹی حکم کے مطابق ہی سنی اتحاد میں شامل ہوئے تھے اور اسی طاقت کی بنیاد پر سنی اتحاد مخصوص سیٹوں میں حصہ مانگ رہا تھا۔ البتہ الیکشن کمیشن نے اس درخواست کو مسترد کرکے سنی اتحاد کونسل کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا تھا جو صرف آزاد منتخب ہونے والے ارکان کی بنیاد پر اپنے آپ کو پارلیمانی پارٹی کہہ رہی تھی۔ سپریم کورٹ نے پہلے اس حکم کو معطل کردیاتھا اور دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی گئی ان مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی ارکان اسمبلی کے طور پر حیثیت ختم کردی گئی تھی جنہیں بظاہر تحریک انصاف کے حصے کی سیٹوں پر رکنیت دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز ایک خط میں رجسٹرار سے سوال کیا تھا کہ آٹھ ججوں کی طرف سے اضافی حکم نامہ کس کے حکم پر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہؤا تھا۔ اس خط کے مطابق اس کیس میں نہ کاز لسٹ جاری ہوئی، نہ ججوں کی کمیٹی میں معاملہ پیش ہؤا اور نہ ہی متعلقہ فریقین یا اٹارنی جنرل کو نوٹس بھیجے گئے۔ یہ سوال نامہ درحقیقت اس خط کے حوالے سے لکھا گیا ہے جس میں آٹھ ججوں نے کسی کارروائی کے بغیر الیکشن کمیشن کی طرف سے 12 جولائی کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا اور تحریک انصاف کو فوری طور سے مخصوص سیٹیں دینے کا حکم دیتے ہوئے نتائج کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔ چیف جسٹس کے خط سے سپریم کورٹ کے اندر گروہ بندی اور ججوں کے اختلافات کا معاملہ کھل کر سامنے آگیا تھا۔
دوسری طرف آج جاری ہونے والے تفصیلی فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ آٹھ ججوں کو اپنے حکم کے بارے میں وضاحتی خط لکھتے ہوئے کاز لسٹ جاری کرنے یا فریقین کو نوٹس دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اکثریتی فیصلہ کرنے والے جج اپنے حکم پر عمل درآمد کے لیے وضاحتی خط لکھنے کے مجاز تھے۔ تفصیلی فیصلہ متوقع طور پر اگلے ماہ چیف جسٹس بننے والے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے اور اس پر جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ تفصیلی فیصلہ میں ان تمام اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے جو 12 جولائی کے مختصر فیصلہ کے بعد سامنے آئے تھے۔ ان میں بنیادی اہمیت اس معاملہ کو تھی کہ تحریک انصاف تو اس معاملہ میں درخواست گزار ہی نہیں تھی ، اسے کیوں کر کسی انعام کا مستحق سمجھ لیا گیا۔
تفصیلی فیصلہ میں عوام کے حق انتخاب کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے سیاسی وابستگی ، سیاسی سرگرمیوں اور بنیادی حقوق کے بارے میں آئینی شق 17 (2) اور شق 19 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی معاملہ پر فیصلہ کرتے ہوئے عوام کے حق انتخاب کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح سیاسی و انتخابی معاملہ پر فیصلہ کرتے ہوئے ان قواعد کی پابندی نہیں کی جاسکتی جو کسی سول معاملہ پر لاگو ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس معاملہ میں تحریک انصاف کو فریق نہ ہونے کے باوجود مخصوص سیٹوں میں حصہ دینے کا حکم دیا گیا تھا کیوں کہ عوام نے اپنے ووٹوں سے اس پارٹی کے امیدواروں کو منتخب کیا تھا۔ اکثریتی ججوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے اس معاملہ میں فریق بننے کے لیے درخواست دائر کی ہوئی تھی جو سپریم کورٹ کے پا س موجود تھی تاہم اس بارے میں مقدمہ کی کارورائی شروع ہونے سے پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ البتہ تفصیلی فیصلہ بھی یہ واضح نہیں کرسکا کہ تحریک انصاف کو فریق بنانے سے کیوں گریز کیا گیا۔
اس تفصیلی فیصلہ میں عوام کے حق رائے دہی کو بنیادی اہمیت کے تناظر میں الیکشن کمیشن کے متعدد فیصلوں کو تحریک انصاف کے بارے میں متعصبانہ قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کاکہنا ہے کہ اب اس معاملہ پر انصاف کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کے ووٹ کی روح کے مطابق پارلیمانی پارٹیاں مخصوص سیٹوں میں حصہ لے سکیں۔ فیصلہ نے تسلیم کیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل اچانک لاتعداد آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد پارلیمانی پارٹی نہیں بن سکتی۔ البتہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ 8 فروری کو عوام کی بڑی اکثریت نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے تھے ۔ الیکشن کمیشن کی معلومات کے مطابق تحریک انصاف کے لیے پڑنے والے ووٹوں سے قومی اسمبلی کے 80 ارکان منتخب ہوئے۔ عدالت کے خیال میں یہ ارکان فطری طور سے پارلیمانی پارٹی ہیں اور محض الیکشن کمیشن کی انتظامی غلطیوں اور غیر قانونی فیصلوں کی وجہ سے انہیں مخصوص نشستوں یا پارٹی شناخت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ کے 8 فاضل ججوں نے اس فیصلہ میں الیکشن کمیشن کو آئینی ادارہ اور ریاست کا چوتھا ستون ماننے کے باوجود اس کے متعدد فیصلوں کو متعصبانہ اور غیر قانونی قرار دیا اور اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ سنی اتحاد کو مخصوص سیٹیں دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن عدالت کے طور پر کام کررہا تھا۔ اس حیثیت میں وہ سپریم کورٹ کے سامنے فریق بن کر پیش نہیں ہوسکتا تھا لیکن اس کی قانونی ٹیم اس فیصلے کے حق میں دلائل دیتی رہی۔ کبھی کوئی عدالت اپنے کسی فیصلے کے خلاف اپیل پر فریق نہیں بن سکتی۔ البتہ اکثریتی فیصلہ میں صرف الیکشن کمیشن کو ہی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ سپریم کورٹ کے 13 جنوری کے اس فیصلہ کو بھی مبہم قرار دیا گیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کی طرف سے تحریک انصاف کو انتخابی نشان نہ دینے کی توثیق کی گئی تھی۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اگر اسی وقت یہ صراحت کردی جاتی کہ انتخابی نشان نہ دینے سے تحریک انصاف بطور سیاسی پارٹی ختم نہیں ہوگئی تھی بلکہ اسے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل تھا۔ اسی لیے الیکشن کمیشن اور اس کی ہدایت پر ریٹرننگ افسروں کی طرف سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد امید وار قرار دینے پر اصرار غیر قانونی تھا، فیصلے میں صراحت کی گئی ہے کہ تیرہ رکنی بنچ کے گیارہ ججوں نے تحریک انصاف کو سیاسی پارٹی تسلیم کیا ہے حالانکہ صرف آٹھ ججوں نے اسے مخصوص نشستوں میں حصہ دینے کا حکم دیا ہے۔
تفصیلی فیصلہ کے آخری دو پیرے سب سے زیادہ سنسنی خیز اور افسوسناک ہیں جن میں بنچ میں شامل دو ججوں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان کے اختلافی نوٹ پر سخت ریمارکس شامل کیے گیے ہیں۔ فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’ بھاری دل سے کہنا پڑتا ہے کہ دو ساتھی ججوں نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ ان تین اگست کا اختلافی نوٹ سپریم کورٹ کے ججوں کے حوالے سے مناسب نہیں ۔ ان ججوں نے کہا ہے کہ ہمارا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے اور الیکشن کمیشن کو اس فیصلے پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے جج کے منصب کے منافی ہے۔ بنچ کے ارکان قانونی طور پر حقائق اور قانون سے اختلاف کر سکتے ہیں اور مختلف رائے دے سکتے ہیں۔ ساتھی جج دوسرے کی رائے پر کمنٹس بھی دے سکتے ہیں۔ رائے دینے کے لیے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرے ججوں کی رائے میں کیا غلط ہے۔ البتہ جس طریقے سے دو ججوں نے اختلاف کیا وہ غیر شائستہ ہے۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے اپنے فیصلے میں جو لکھا وہ انہیں زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا‘۔
دو ساتھی ججوں کے اختلافی نوٹ پر ان سخت ریمارکس سے مخصوص سیٹوں کے تنازعہ کی قانونی پوزیشن واضح ہونے سے زیادہ سپریم کورٹ کے ججوں میں موجود اختلافات سامنے آئے ہیں۔ اس طرح ملک کے نظام انصاف پر بداعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ چند ہفتے میں چیف جسٹس بننے والے ہیں۔ انہیں جونئیر ساتھی ججوں کے اختلاف پر اس قدر سخت ریمارکس سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ ان ریمارکس سے نہ تو اکثریتی فیصلے کے وزن میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی ان دو ججوں کی حیثیت متاثر ہوگی لیکمن عوام کو یہ محسوس ہوگا کہ ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والی اعلیٰ ترین عدالت کے جج حضرات ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔
جیسا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے بجا طور سے فیصلہ میں لکھا ہے کہ کوئی جج کسی بھی معاملہ پر غور کرتے ہوئے سختی سے قانون و آئین کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ اس حوالے سے بنچوں میں شامل ججوں میں اختلاف بھی ہوتا ہے لیکن وہ نیک نیتی سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے خود ہی اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’ان کا طریقہ جج کے عہدے کے شایان شان نہیں ہے‘۔ ساتھی ججوں پر ایسا ذاتی حملہ تلخیوں میں اضافہ کرے گا ۔ اس سے سپریم کورٹ کو بطور ادارہ شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ملک میں پہلے ہی آئینی عدالت بناکر سیاسی معاملات میں سپریم کورٹ کی بالادست حیثیت ختم کرنے پر سیاسی اتفاق رائے ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس ماحول میں ججوں کو مزید احتیاط اور ایک دوسرے کے لیے احترام کا اظہار کرنا چاہئے ۔ بدقسمتی سے تفصیلی فیصلہ سے نہ تو کوئی سیاسی مسئلہ حل ہوگا اور نہ ہی قانونی گتھیاں سلجھنے سے معاملات طے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ باہمی اختلافات کو یوں سامنے لانے سے یہ واضح ہورہا ہے کہ شاید عدالت عظمی کے متعدد جج در حقیقت ا س منصب کے لائق نہیں ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ