آج اسلام آباد میں رونما ہونے والے واقعات کسی پاکستانی کے لیے خوش آئیند نہیں تھے۔ اس ملک میں جمہوری نظام اور قابل اعتبار حکومت کے قیام کا خواب بھی آج ڈی گراؤنڈ میں ہونے والے دنگے فساد میں بکھرتا دکھائی دیا۔ قانون کی بات کرنے والے اور اسےچیلنج کرنے والے یکساں طور سے کسی بھی مہذب نظام کے دشمن کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
رات گئے رینجرز نے پولیس اور ایلیٹ فورس کے ساتھ مل کر ڈی گراؤنڈ اور اس سے ملحق علاقے صاف کرالیے تھے ۔ تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے بارے میں وزیر داخلہ اور دیگر سرکاری ترجمانوں کا کہنا ہے کہ ان میں جرائم پیشہ لوگ اور افغان شہری بھی شامل تھے۔ ڈی گراؤنڈ پہنچ کر کارکنوں سے خان کی رہائی سے پہلے وہاں سے نہ جانے کا حلف لینے والی بشریٰ بی بی اور تمام قیدیوں کی رہائی سے قبل احتجاج ختم نہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کارکنوں کو گرفتار ہوتا دیکھ کر خود موقع سے غائب ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کے متعلق علم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران میں اسلام آباد کی ریڈ زون کو حکومت کی ریڈ لائن قرار دینے اور اس کی حفاظت کے لیے تواتر سے زور بیان صرف کرتے رہے تھے۔ تاہم آج جب خیبر پختون خوا سے اسلام آباد پہنچنے والا تحریک انصاف کا قافلہ آگے بڑھا تو ایک اطلاع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے نے تعرض نہیں کیا۔ اسی طرح چشم دید گواہوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈی گراؤنڈ کی ’حفاظت‘ کے لئے نصب کیے گئے کنٹینر ہٹاتے ہوئے متعدد کارکن کنٹینروں پر چڑھ گئے۔ اس وقت فوج کے سپاہی بھی وہاں ڈیوٹی پر مامور تھے لیکن کسی نے باز پرس نہیں کی۔ اسی نرمی کے ماحول میں بشریٰ بی اور علی امین گنڈا پور کو تھوڑی دیر کے لیے ڈی گراؤنڈ پر ’قابض‘ ہونے کا موقع ملا اور وہاں ’تاحیات ‘ دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا۔ اسی دوران میں ایکس پر عمران خان کا پیغام بھی نشر ہؤا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے کارکن آخری بال تک کھیلیں گے اور حکومتی ظلم سے پریشان نہیں ہوں گے۔ بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو کارکن ابھی ڈی گراؤنڈ نہیں پہنچے ، وہ اب وہاں پہنچیں۔ تاہم اب شاید اس کی نوبت نہ آئے۔
خیبر پختون خوا کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا ہے کہ عمران خان تو سنگجرانی میں دھرنا دینے پر راضی ہوگئے تھے لیکن بشریٰ بی بی بضد تھیں کہ احتجاجی ریلا لے کر ڈی گراؤنڈ ہی جانا ہے۔ اس لیے باقی قیادت بھی ان کی بات ماننے پر مجبور ہوگئی۔ کچھ اسی قسم کا دعویٰ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی کیا ہے کہ معاملات طے ہوجاتے لیکن ایک عورت کی ضد کی وجہ سے حالات پر کنٹرول نہیں رکھا جا سکا ۔ وہ مسلسل تصادم پر اکساتی رہی ہیں۔ اسلام آباد میں ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں ابھی تک کوئی مکمل اور واضح تصویر بنانا ممکن ہیں ہے ۔ البتہ آج دن کے وقت مظاہرین کی گاڑی ایک چیک پوسٹ پر رینجرز اور پولیس اہلکاروں پر چڑھا دی گئی جس میں رینجرز کے تین اور پولیس کا ایک ہلکار جاں بحق ہوگیا۔ بعد میں سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلائی گئی کہ رینجرز ہی کی گاڑی نے اپنے اہلکاروں کو کچل دیا ۔ البتہ رینجرز نے ایک پریس ریلیز میں واضح کیا کہ جاں بحق ہونے والے اہلکاروں کو مظاہرین کی ایک گاڑی نے کچلا تھا۔ دوسری طرف تحریک انصاف دعویٰ کررہی ہے کہ مختلف مقامات پر پولیس و رینجرز کی فائرنگ سے اس کے 6 کارکن جاں بحق ہوئے ہیں۔ تاہم سرکاری طور پر یا غیر جانبدار ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
وزیر داخلہ مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے لیڈر کارکنوں کو ہلاک کرا کے چند لاشیں اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی بنیاد پر سیاست کریں۔ ان کا دعویٰ رہا ہے کہ حکومت نے خوں ریزی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور ہم انسانی جانوں کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتے۔ شاید اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہو کہ ابتدائی طور پر مظاہرین کو ڈی گراؤنڈ آنے کا موقع دے کر رات گئے ایک آپریشن میں انہیں منتشر کیا گیا اور کریک ڈاؤن میں نمایاں کارکنوں کو گرفتار کرکے اسلام آباد کو ’محفوظ‘ کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس اور رینجرز نے علاقہ کلئیر کرانے کے بعد ڈی گراؤنڈ کے گرد کنٹینر دوبارہ ان کی جگہ پر نصب کردیے ہیں۔ دوسری طرف احتجاج کی قیادت کرنے والے دونوں اہم لیڈر بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور ’لاپتہ‘ ہیں۔ اس لیے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک آدھ دن کے بعد تحریک انصاف باقی ماندہ قوت کو جمع کرکے پھر سے ڈی گراؤنڈ پہنچنے کی کوشش کرے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے خوں ریزی سے بچنے کے لیے نرمی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ان دعوؤں سے قطع نظر گزشتہ چند روز کے دوران رونما ہونے والے حالات اور آج سارا دن اسلام آباد کے حساس ترین علاقوں میں ہنگامہ آرائی سے حکومتی رٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس موقع پر بیلا روس کے صدر بھی پاکستان کے سرکاری دورے پر دارالحکومت میں موجود تھے۔ ایسے موقع پر شہباز شریف کی حکومت یہ واضح کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اس کے حفاظتی انتظامات قابل اعتبار ہیں۔ اسی کمزوری کو کسی حکومت کی اتھارٹی چیلنج ہونا کہا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت بوجوہ اپنی رٹ قائم کرنے اور دارالحکومت میں امن و امان بحال رکھنے میں کامیاب نہیں رہی۔ اب وضاحت کے لیے جو بھی عذر تراشی کی جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف ہی بڑی تعداد میں مظاہرین جمع نہیں کرسکی۔ بصورت دیگر حکومت شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے کے باوجود ان کی حفاظت کرنے اور اسلام آباد کے ریڈ زون کو کسی جلوس اور مظاہرے سے بچانے میں کامیاب نہیں رہی۔
وزیر اعظم شہباز شریف مذمتی بیانات جاری کرنے اور بلند بانگ دعوے کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ آج رینجرز و پولیس اہلکار کی شہادت کے فوری بعد بھی انہوں نے سخت مذمتی بیان جاری کیا تھا ۔ اب انہیں اپنی حکومت کی ناقص انتظامی و سیاسی حکمت عملی کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ اور عوام کو بتانا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک ہفتہ تک پورے پنجاب اور اسلام آبادکو حصار بند کرنے، تمام مواصلاتی نظام معطل کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود حکومت کیوں کر دارالحکومت کی حفاظت میں ناکام رہی۔ اس صورت حال کی پہلی ذمہ داری حکومت کی ناقص سیاسی حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے ۔ وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور مقبول لیڈر کو انگیج کرنے اور ان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے میں ناکام رہی۔ احتجاج کا اعلان ہونے کے بعد متعدد حفاظتی انتظامات کے ذریعے اسلام آباد کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن بظاہر حکومتی مشینری اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر احتجاجی جلوس کی قیادت ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ کررہا تھا اور وفاقی حکومت کسی بھی طرح براہ راست اس سے بات چیت کے ذریعے کوئی قابل قبول حل تلاش نہیں کرسکی۔ البتہ خیبر پختون خوا کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے مرکزی حکومت کی صلاحیت اور قابلیت پر انگلی اٹھائی جائے گی۔ شہباز شریف کو چیف ایگزیکٹو کے طور پر اپنی اس ناکامی کا نہ صرف اعتراف کرنا چاہئے بلکہ پارلیمنٹ میں ا س کی وضاحت پیش کرنی چاہئے
مسلم لیگ (ن) ضرور دعویٰ کرسکتی ہے کہ وہ انتخابات جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تاہم اس انتخابی کامیابی کے بارے میں اٹھنے والے سوالوں کا اطمینان بخش جواب فراہم نہیں کیا جاسکا۔ پارلیمانی نظام حکومت میں اسمبلی کی اکثریت کسی شخص کو قائد ایوان چنتی ہے اور یوں وہ وزیر اعظم بنتا ہے۔ یہ شہباز شریف یا کسی بھی دوسرے شخص کا موروثی حق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی وزیر اعظم اپنے منصب سے انصاف کرنے، سیاسی چیلنجز سے نمٹنے یا امن و امان قائم کرنے میں نکام رہتا ہے تو اسے خود ہی اپنی پوزیشن کا جائزہ لینا چاہیے اور کسی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرکے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ پاکستان کے سیاسی حالات میں یہ انہونی ہی ہوگی لیکن اصولی اور اخلاقی طور سے ایک ہفتہ تک دارالحکومت کو محصور کرنے، شہریوں کو تمام سہولتوں سے محروم رکھنے اور نظام زندگی معطل ہونے کے باوجود آج اگر اسلام آباد میں دو طرفہ جنگ کے آثار تھے تو کسی کو تو اس کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ شہباز شریف یہ حوصلہ کرسکیں تو شاید اس وقت ملک میں جمہوریت اور منتخب سیاست کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہوسکے اور عوام کا انتخابی سیاست پر اعتماد بحال ہو۔
یہ طرفہ تماشہ بھی اسی ملک میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک صوبے کی منتخب حکومت کا وزیر اعلیٰ اپنے ’لاؤ لشکر‘ کے ساتھ مرکزی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے دارالحکومت پر حملہ آور ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن کوئی جمہوری ادارہ، کوئی عدالت کوئی قانون اس کا راستہ روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ خیبر پختون خوا اسمبلی اپنے وزیر اعلیٰ سے یہ کہنے کی جرات نہیں کرتی کہ ان کا کام صوبے کا انتظام کرنا ہے، تحریک انصاف کے احتجاج کی قیادت کوئی دوسرا لیڈر کرلے گا۔ تاہم گروہی مفادات کو سیاست ، جمہوریت اور آزادی کا نام دیا جائے تو پھر منتخب ادارے بھی اسی جمہوری نظام کے ساتھ دشمنی نبھانے لگتے ہیں جو ان کے قیام کا باعث بنا ہے۔ یہ صورت حال بے حد سنگین ہے اور اعلیٰ ترین سطح پر غور کے بعد یہ مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈی گراؤنڈ پہنچنے والے لوگوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ بعض رپورٹس میں لوگوں کی تعداد کا اندازہ پانچ ہزار لگایا گیا ہے۔ یہ چند ہزار لوگ بھی گاڑیوں ، ٹرکوں اور بسوں میں سوار ہوکر پشاور سے اسلام آباد پہنچائے گئے تھے۔ عمران خان کی فائنل کال کے باوجود اور بشریٰ بی بی کی طرف سے ہر رکن اسمبلی کو پانچ سے دس ہزار افراد اسلام آباد لانے اور اس کا ثبوت فراہم کرنے کی ہدایت کے باوجود پنجاب یا کسی دوسرے صوبے سے کوئی جلوس اسلام آباد نہیں پہنچا۔ خیبر پختون خوا سے آنے والا ہجوم صوبائی حکومت کے زیر انتظام وہاں سے لایا گیا۔ جو حقائق اس وقت سب کے سامنے ہیں، حکومت کو انٹیلی جنس رپورٹس اور سیاسی مکالمہ کے دوران بہت پہلے ان کے بارے میں درست اندازہ قائم کرلینا چاہئے تھا۔ ایسے میں اگر تحریک انصاف سے یہ سوال کیا جائے گا کہ اتنا ہنگامہ کرنے کے باوجود اگر پارٹی کی کل اوقات چند ہزار افرادکو مرنے مارنے پر آمادہ کرنا ہے تو وہ متبادل حکمت عملی کیوں اختیار نہیں کرتی۔ البتہ حکومت کو بھی اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ اگر صرف ایک صوبے سے چند ہزار لوگ ہی آنے تھے تو اس کے لیے پورا پنجاب اور اسلام آباد بند کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کنٹینر کسی جلوس کا راستہ نہیں روک سکے پھر ہزاروں کی تعداد میں انہیں نصب کرکے شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے کا کیا جواز تھا؟
ہوسکتا ہے کہ حکومت ڈی گراؤنڈ پر اپنا اختیار بحال کرلے۔ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کا یہ ہلہ بھی ناکام ہوگیا ہو۔ لیکن گزشتہ چند دنوں میں جو کچھ بھی رونما ہؤا ہے ، اس سے جمہوریت اور سیاسی لیڈروں پر عوام کاعمومی اعتبار متزلزل ہؤا ہے۔ پاکستان میں اگر اسی صورت حال کو ’نیو نارمل‘ قرار دے کر قبول کرانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ بھی واضح ہے کہ ملکی معیشت بحال کرنے اور قومی پیداوار میں اضافے کی ہر خواہش بھی نقش بر آب ثابت ہوگی۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ