وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دو روز کے دوران متعدد بیانات کے ذریعے خبروں میں رہنے اور اپنی حکومت کے فعال اور مؤثر ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے ۔لیکن وہ اپنی باتوں سے کوئی ایسا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس سے یہ قیاس کیا جاسکے کہ حکومت کسی ٹھوس منصوبے کے تحت حالات تبدیل کرنے اور ملک کی درست سمت میں قیادت کررہی ہے۔
آج ہی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ملک میں رمضان پیکیج دینے کا اعلان کیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس بار یہ پیکیج یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کے ذریعے تقسیم نہیں ہوں گے بلکہ انہیں دوسرے انتظامات کے ذریعے عوام تک پہنچایا جائے گا۔ گویا وزیر اعظم کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعتراف کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والی ایک کارپوریشن میں گھپلے اور کرپشن کے سبب اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ خود حکومت بھی اپنے ہی ایک ادارے پر بھروسہ نہیں کرتی بلکہ عوام کو کسی دوسرے طریقے سے سہولت فراہم کرے گی۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو حکومت خود اپنے زیر انتظام چلنے والے ادارے میں بدعنوانی یا بدانتظامی ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، وہ قومی سطح پر معاشی اصلاح اور عوام کے مسائل ختم کرنے کا دعویٰ کیسے کرسکتی ہے؟ اسی حوالے سے یہ اہم سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اگر سال ہاسال سے اشیائے ضرورت سستی قیمت پر لوگوں تک پہنچانے کا کام کرنے والا ایک سرکاری ادارہ وزیر اعظم کے بقول بدعنوانی اور بد انتظامی کا شکار ہے تو اسے برقرار رکھنے کی کیا وجہ ہے؟ جو حکومت اپنے تحت کام کرنے والی یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا انتظام درست نہیں کرسکتی اور اسے قابل بھروسہ بنانے پر قادر نہیں ہے، اس پر کیسے یہ اعتبار کیا جائے کہ وہ کسی دوسرے انتظام کے تحت جب عوام تک رمضان پیکیج پہنچائے گی تو اس میں بدعنوانی نہیں ہوگی اور لوگوں کو واقعی وہ مالی فائدپہنچ سکے گا جو حکومت ان تک پہنچانا چاہتی ہے۔
اپنے ہی ایک ادارے کی بدعنوانی کا پول کابینہ کے اجلاس میں کھولنے کے بعد شہباز شریف کے رمضان پیکیج والے وعدے کو سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ اور نہ ہی یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اب نئے انتظام کے تحت لوگوں کو رمضان المبارک کے دوران سستے داموں اشیائے صرف حاصل ہوجائیں گی۔ یوں بھی نام نہاد رمضان پیکیج جیسے منصوبے عوام کو دھوکہ دینے اور ایک کرپشن زدہ نظام میں بدعنوانی کا ایک نیا موقع فراہم کرنے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر ایک سرکاری کارپوریشن بدعنوانی کا شکار ہے تو اس سرکاری انتظام میں کام کرنے والے دیگر عہدیدار بھی اسی ڈگر پر گامزن ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں اگر حکومت اپنے ایک ادارے کو ٹھیک نہیں کرسکتی تو وہ کسی نئے انتظام کو کیسے فعال ، شفاف اور عوام دوست بنا سکتی ہے؟
ویسے تو کسی خاص موقع پر خصوصی پیکیج دینے کا طریقہ کار ہی سراسر سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ایسے منصوبے بنا کر حکومت اپنے لوگوں کو کچھ عہدے اور تقسیم و انتظام کا کام دے کر نوازنے کا اہتمام تو کرسکتی ہے لیکن اس سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہوتا۔ ماضی میں ایسے منصوبوں کا جائزہ لے کر اس حوالے سے اعداد و شمار تیار کیے جاسکتے ہیں۔ یوں تو وزیر اعظم نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس رمضان پیکیج میں کیا ہوگااور یہ کیسے اور کس نئے انتظام کے تحت لوگوں تک پہنچایا جائے گا لیکن اس منصوبے کے اعلان سے یہ اندازہ تو بہر حال قائم کیا جاسکتا ہے کہ حکومت اس پیکیج کے ذریعے لوگوں کو مہنگائی سے بچانے اور سستے داموں اشیائے صرف فراہم فراہم کرنے کا اعلان کرکے اپنی عوام دوستی کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے۔ بدقسمتی سے بات کبھی اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ سرکاری خزانے سے چند ارب روپے ضرور صرف ہوجاتے ہیں لیکن عوام کو مالی سہولت دینے کا جو عزم ظاہر کیا جاتا ہے، وہ پورا نہیں ہوتا۔
ویسے بھی وزیر اعظم شہباز شریف کو رمضان پیکیج کی نوید کے حوالے سے اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہئے کہ کیا ملک کے شہریوں کو صرف رمضان میں بھوک لگتی ہے یا ان پر صرف رمضان میں مالی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی بنیادی ضرورت کی چیزیں درکار ہوتی ہیں اور عوام انہیں حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ بلکہ رمضان پیکیج کا اعلان کرکے اور اس پر نام نہاد عمل درآمد کے ذریعے وزیر اعظم اور وفاقی حکومت دراصل تاجروں کی اس لوٹ مار کو جواز فراہم کرنے کا سبب بنے گی جو اس مقدس مہینے کے دوران دیکھی جاتی رہی ہے۔ دنیا بھر میں تہوار کے مواقع پر تاجر رعائیتی قیمتوں پر بنیادی ضرورت کی اشیا فراہم کرکے غریب امیر سب کو اس موقع پر خوش ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی کمپنی یا تاجر کسی کو اپنی گرہ سے کچھ فراہم نہیں کرتا البتہ تہوارکے موقع پر پرانے اسٹاک کو ختم کرنے کے لیے اسے نسبتاً کم منافع پر مارکیٹ میں ڈالا جاتا ہے۔ اس طرح تاجروں کو نیا مال خریدنے اور پرانے مال سے نجات حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے جبکہ جو لوگ مہنگی اشیا خریدنے کی استظاعت نہیں رکھتے ، وہ ایسی سیل سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ یوں سماج میں سب لوگوں کو خوش ہونےا ور تہوار منانے کا موقع مل جاتا ہے
بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی روایت دیکھنے میں نہیں آئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ اگر چہ نیکیاں کمانے کا مہینہ کہا جاتا ہے لیکن تاجر اسے دوگنا تین گنا منافع کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ حکومت رمضان پیکیج کے نام پر عوام دوستی کا ثبوت دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن درحقیقت وہ یہ اعتراف کررہی ہوتی ہے کہ وہ ملک میں منافع خوری اور ناجائز طور سے قیمتوں میں اضافے کی روک تھام میں ناکام رہی ہے۔ درحقیقت جس حکومت کا سربراہ خود ہی بدعنوانی کی موجودگی کا اعتراف کررہا ہو، اس سے یہ امید بھی کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ اس علت کے خلاف کوئی مؤثر اقدام کرسکتی ہے؟ وزیر اعظم کو رمضان پیکیج دینے کی بجائے رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی بنیادی ضرورت کی چیزوں کی فراہمی اور قیمتوں پر کنٹرول کا کوئی میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عام شہریوں کو مناسب منافع لے کر بنیادی ضرورت کی چیزیں فراہم ہوتی رہیں۔ ملک میں کبھی بھی ایسا کوئی انتظام دیکھنے میں نہیں آیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اعلان کیا ہے اور اس سے پہلے دیگر وزیر بھی یہ بتاتے رہے ہیں کہ ملک میں افراط زر میں بے حد کمی واقع ہوئی ہے ۔ شہباز شریف نے یہ خوشی کی خبر سنائی ہے کہ جنوری کے دوران مہنگائی کی شرح صرف 2،2 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال اس وقت یہ شرح پندہ فیصد اور دو سال پہلے تیس فیصد سے زیادہ تھی۔ معاشی لحاظ سے یہ واقعی بڑی کامیابی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کامیابی کی خبر وزیر اعظم یا وزیر خزانہ کے بیانات اور اخباروں کی سرخیوں کے ذریعے عوام تک پہنچتی ہے۔ ان کا گھریلو بجٹ اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات اس کی گواہی نہیں دیتے۔ افراط زر میں ہونے والی کمی ہر اس شعبہ میں اشیا کی قیمتوں پر مارکیٹ میں محسوس ہونا چاہئے جس کی قیمتیں اعداد و شمار کے مطابق کم نوٹ کی جاتی ہیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہوتا تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ حکومت ملک سے منافع خوری کا مزاج ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ افراط زر میں کمی کے باوجود بازار میں چیزوں کی قیمتوں میں تسلسل یا اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کی معاشی کامیابیاں محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے اور لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ اس طرح نہ تو حقیقی معنوں میں معاشی سرگرمیاں شروع ہوپاتی ہیں اور نہ ہی عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوتا ہے۔ یہ کمی پوری کرنے کے لیے دیگر حکومتوں کی طرح شہباز شریف بھی اس کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر خود سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج ہی اوورسیز پاکستانیز گلوبل فاؤنڈیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں موجودہ دہشت گردی کی تمام ذمہ داری سابق حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی افسوسناک کوشش کی۔ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے چند سال پہلے ایک حکومت نے ان کو دوبارہ پاکستان آنے دیا اور کہا کہ یہ امن کے پیامبر ہیں۔ اس سے بڑی پاکستان دشمنی اور کوئی نہیں ہوسکتی‘۔ حالانکہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان لاکر آباد کرنے کا فیصلہ تحریک انصاف کی حکومت کی بجائے سابق آرمی چیف کی سربراہی میں عسکری قیادت نے کیا تھا لیکن روائیتی طور پر فوج کی خوشامد کے لیے مشہور شہباز شریف اس حقیقت کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعینہ انہوں نے کابینہ میں خطاب کرتے ہوئے یہ بتانے کی زحمت تو نہیں کی کہ ملک کو کیسے پولیو کی وبا سے مکمل طور سے نجات دلائی جائے گی البتہ اس مہم کے دوران حال ہی میں جاں بحق ہونے والے ایک پولیس افسر کی تعریف و توصیف کرکے خود کو کامیاب و کامران ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن ایسی لفاظی سے کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوتی۔
شہباز شریف نے یہی رویہ گزشتہ روز بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائی میں زخمی ہونے والے فوجی جوانوں کی عیادت کے دوران بھی اختیار کیا۔ جمعہ کو صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف مہم جوئی میں 18 فوجی شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ البتہ وزیر اعظم دو دن بعد زخمی فوجیوں کی عیادت کے لیے وہاں تشریف لے گئے اور فوج کی توصیف میں چند کلمات کہہ کر اپنے تئیں دہشت گردی اور مقامی بے چینی ختم کرنے کا فریضہ ادا کرلیا۔ حالانکہ علیحدگی پسند عناصر کے ساتھ نبرد آزما فوجیوں کو پہنچنے والے جانی نقصان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی حکومت بھی بلوچستان کے سیاسی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم اس بار بھی فوج کے کثیر تعداد میں جانی نقصان کی وجہ سے ضرور بلوچستان کے مختصر دورے پر گئے لیکن وہ صوبے کی مقامی قیادت اور اسٹیک ہولڈرز سے مل کر کوئی سیاسی حل تلاش کرنے کی کسی قسم کی کوشش کرنے میں ناکام رہے۔
محترم وزیر اعظم کو جان لینا چاہئے کہ خبروں میں رہنے کے لیے اوٹ پٹانگ بیانات سے حکومت کی عزت میں اضافے کی بجائے، یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ ملک میں منتخب ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود وہ اپنی موجودگی ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو محض فوجی قیادت کی سرپرستی پر بھروسہ کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو سمجھنے اور عوام کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات میں ان لیڈروں کو فوجی قیادت کے سامنے نہیں بلکہ عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ