نیٹو کے جنرل سیکرٹری مارک روٹے کے اس بیان کے بعد یوکرین کے سوال پر یورپ کی پوزیشن کے بارے میں درست رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ یوکرینی صدر زیلنسکی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ معاملات درست کریں۔ زیلنسکی نے بھی جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور نائب صدر وینس کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد ایکس پر متعدد پیغامات میں امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے صدر ٹرمپ یوکرین کی حمایت جاری رکھیں گے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس پہنچے تھے جہاں انہیں پروگرام کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ یوکرینی معدنیات کے ایک معاہدے پر دستخط کرنا تھے۔ ان معدنیات کا تخمینہ 500 ارب ڈالر ہے لیکن ان کی اہمیت ان کی نایاب حیثیت اور ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات میں ان کے استعمال کے بارے میں ہے۔ امریکہ کسی بھی قیمت پر یہ معدنیات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تجارتی اصولوں کے تحت امریکہ کی پالیسیاں بنانا شروع کی ہیں۔ ان کے لیے صرف وہی ممالک اہمیت کے حامل ہیں جن کے ساتھ معاملات میں امریکہ کو مالی فائدہ ہوسکے۔ اسی لیے وہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ تجارت پر محاصل عائد کرنے اور روس جیسے بظاہر امریکہ دشمن ملک کے ساتھ روابط بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کا امریکہ یوکرین کے ساتھ بھی اسی بنیاد پر معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ وہ یوکرینی جنگ میں وسائل صرف کرنے پر آمادہ نہیں ہے بلکہ یوکرین سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے یوکرین کو جو وسائل فراہم کیے ہیں، انہیں واپس کیا جائے۔
عام طور سے کسی جنگ زدہ ملک سے ایسا مطالبہ عجیب سنائی دیتا ہے جو اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے ساتھ برسر پیکار ہو اور اس جنگ کا آغاز بھی امریکہ اور یورپ کے لیے یوکرین کی حمایت کی وجہ سے ہؤا ہو۔ تمام دوسرے ممالک کی طرح یوکرین میں بھی ہمسایہ ملک روس کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بارے میں دو متضاد رائے پائی جاتی ہیں۔ بعض سیاسی عناصر روس کے ساتھ دوستی اور ہم آہنگی پیدا کرکے چلنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپی ممالک جمہوریت اور انسانی اقدار کی دہائی دیتے ہوئے ان مخالف سیاسی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے جو روس کی بجائے مغربی طاقتوں کی طرف رجوع کریں تاکہ جغرافیائی لحاظ سے محاذ آرائی کو روس کی سرحد کے قریب تر لایا جائے۔ اسی سوچ اور سیاسی تحریک کے نتیجے میں موجودہ صدر ولادیمیر زیلنسکی 2019 میں صدر منتخب ہوئے اور روسی حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بنے۔ اسی پریشانی کو دور کرنے کے لیے روس کے صدر پوتن نے فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کردیا۔ اس حملہ کا بنیادی مقصد کیف میں مغرب نواز حکومت ختم کرکے ایسے عناصر کو اقتدار میں لانا تھا جو روس کے حامی ہوں تاکہ روس کو نیٹو کے مقابلے میں ’حفاظت‘ کا احساس ہو۔
یوکرین جیساچھوٹا سا ملک روس جیسے قوی الجثہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ جنگ کے آغاز میں یہی لگتا تھا کہ روسی فوجیں چند دن میں دارالحکومت کیف پہنچ جائیں گی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد روس اس علاقے میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ البتہ جن مغربی ممالک نے زیلنسکی کی قیادت میں کیف میں جمہوری اصولوں کی بنیاد پر استوار روس مخالف حکومت قائم کرائی تھی، ان کے لیے یہ صورت حال ایک اہم چیلنج کے طور پر سامنے آئی۔ اس موقع پر اگر نیٹو اور یورپی ممالک خاموش رہتے تو انہیں روس کو دشمن کی بجائے ایک اہم فریق کے طور پر قبول کرنا پڑتا جس کی رائے کو مسترد کرنا آسان نہ ہوتا۔ اس کے برعکس امریکہ کی قیادت میں نیٹو نے روس کی کامیابی کو نیٹو کی عزت کا سوال بنا لیا اور چند ہی ہفتوں میں اربوں ڈالر کا جنگی ساز و سامان یوکرین پہنچنے لگا، یوکرینی فوجیوں کی اعلیٰ پیمانے پر تربیت کا اہتمام کیا گیا اور اسے جدید ترین اسلحہ فراہم ہؤا۔ یوں ایک چھوٹا سا ملک یوکرین گزشتہ تین سال سے روس جیسی قوت کے مد مقابل ہے۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 20 جنوری کو واشنگٹن میں ایک ایسے شخص نے صدر کا عہدہ سنبھالا جو معاملات کو روائیتی عینک سے دیکھنے کا روادار نہیں ہے۔ جس کے لیے اقدار، جمہوریت یا انسانی حقوق کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ امریکہ کو کس تعلق سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انہی خیالات اور مقبولیت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرکے ہر قانون و قاعدے کو مسترد کرکے مرضی ٹھونسنے کے اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس جنگ میں روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا اور یوکرین یہ جنگ درحقیقت اپنے حق دفاع میں لڑنے پر مجبور ہے۔ وہ تو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں کہ یوکرین کو روس سے بھڑ جانے پر آمادہ و تیار کرنے کے لیے امریکی حکومت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ٹرمپ ہمیشہ صدر پوتن کے معترف رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ جنگ بند کراکے ایک تو وہ دنیا پر اپنی دھاک بٹھا سکتے ہیں، دوسرے پوتن کے ساتھ تعلقات کے نتیجہ میں امریکہ معاشی، تجارتی ، سفارتی اور اسٹریٹیجک فائدے اٹھا سکتا ہے۔ ان میں ایک فائدہ روس کو چین سے دور کرکے امریکہ کے قریب لانا ہے تاکہ امریکہ عالمی منڈیوں میں چین کو چیلنج کرنے کے قابل ہو اور چین کو بڑی طاقت بننے سے روکا جاسکے۔
اسی سوچ کے پیش نظر وہ صدارت سنبھالنے سے پہلے ہی یوکرین کی جنگ ایک دن میں بند کرانے کے دعوے کرتے رہے تھے۔ لیکن انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس بارے میں انہیں یورپی حلیف ممالک کی حمایت حاصل نہیں ہوسکے گی لہذا انہوں نے یک طرفہ طور سے روس کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کیا اور گزشتہ ماہ کے وسط میں امریکی و روسی وزرائے خارجہ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ملاقات کی اور یوکرین جنگ بند کرنے کے لیے معاملات طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت بھی یورپی ملکوں نے خود کو تنہا چھوڑنے پر بہت واویلا کیا تھا لیکن ٹرمپ نے یک طرف ’سفارت کاری‘ کا سلسلہ جاری رکھا اور یورپ اس صورت حال میں امریکہ کے مقابلے میں کسی ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق رائے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
اسی تناظر میں امریکی حکومت نے یوکرین سے معدنیات میں 50 فیصد حصص دینے کا مطالبہ کردیا۔ یہ مطالبہ ایک اقتصادی معاہدے کی صورت میں کیا گیا تھا تاہم یوکرینی صدر نے یوکرین کی قومی سلامتی کی ضمانت کے بغیر اس معاہدے کو ماننے سے انکار کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس کے خلاف جنگ میں وسائل فراہم کرتے ہوئے انہیں واپس کرنے کی بات نہیں ہوئی تھی ۔ اس لیے یوکرین ، امریکہ کا ’مقروض‘ نہیں ہے۔ اسی قسم کے بیانات پر طیش میں آکر ٹرمپ نے زیلسنکی کو آمر قرار دیا اور انہیں جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار بھی کہا۔ تاہم معدنیات کے معاہدے پر بات چیت آگے بڑھتی رہی اور فریقین واضح سکیورٹی گارنٹی کے بغیر اس معاہدے کے مسودے پر متفق ہوگئے کیوں کہ ٹرمپ اور ان کے معاونین نے متعدد بار کہا تھا کہ امریکہ کی یوکرین میں موجودگی ہی ا س کی قومی سلامتی کی ضمانت ہوگی۔
البتہ گزشتہ روز زیلسنکی جب معاہدے پر دستخط کرنے وائٹ ہاؤس پہنچے اور تو اوول آفس میں میڈیا کے سامنے ٹرمپ نے زیلسنکی سے مطالبہ کیا کہ امریکہ نے روس کے ساتھ جنگ بندی کی جو شرائط طے کی ہیں، وہ انہیں مان لیں اور امن قائم کریں۔ اس پر زیلسنکی نے کہا کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنے لوگوں کے قاتل کے ساتھ کیسے امن قائم کرسکتے ہیں۔ ہم پر روس نے حملہ کیا ہے اور پوتن قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اس جواب پر ٹرمپ نے زیلسنکی کو ’ناشکر گزار ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ امن معاہدہ نہیں مانتے تو ہم اس کا حصہ نہیں ہیں۔ آپ خود ہی جنگ لڑیں اور میں جانتا ہوں کہ یہ بدنما جنگ ہوگی۔ انہوں نے زیلسنکی کو لاکھوں لوگوں کی زندگی سے کھیلنے اور تیسری جنگ کا جؤا لگانے کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ نائب صدر وینس بھی اس مکالمہ میں شامل ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ یہ باتیں کرکے زیلسنکی نے امریکہ کی توہین کی ہے۔ اس دعوے کو بعد میں صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کے بیانات میں دہرایا بھی گیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ زیلسنکی نے اوول آفس جیسے باوقار مقام پر امریکہ کی توہین کی ہے جبکہ وزیر خارجہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یوکرینی صدر نے ہمارا وقت برباد کیا۔ اس پر انہیں معافی مانگنی چاہئے۔
خبروں کے مطابق تلخ کلامی کے بعد وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں نے یوکرینی صدر سے چلے جانےکی درخواست کی اور ان کے ساتھ ٹرمپ کی پریس کانفرنس منسوخ کردی گئی۔ اسی تلخ کلامی کی وجہ سے معدنیات کے معاہدے پر دستخط بھی نہیں ہوسکے۔ ٹرمپ یہ اعلان کرتے ہوئے فلوریڈا روانہ ہوگئے کہ زیلسنکی ابھی امن کے لیے تیار نہیں ہیں جب وہ امن چاہیں تو وائٹ ہاؤس واپس آسکتے ہیں۔ البتہ زیلسنکی نے وائٹ ہاؤ س سے واپس جاتے ہی ٹرمپ اور امریکی عوام کے شکریے کا بیان ایکس پر جاری کیا۔ فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے ساتھ تلخی کے باوجود معاملات درست کیے جاسکتے ہیں۔ ہفتہ کو لندن پہنچے پر انہوں نے ایک بیان میں معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور وینس کی شعلہ بیانی اور زیلسنکی کی بے بسی کی ویڈیو عام ہونے کے بعد یورپی لیڈروں کی طرف سے یوکرین کی حمایت میں بیانات کا تانتا بندھ گیا۔ ان بیانات کا مفہوم پولینڈ کے صدر ایندریو ڈوڈا کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا کہ ’آپ اکیلے نہیں ہیں ۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں‘۔ البتہ ان دعوؤں اور وعدوں کو اس خوش فہمی کا پرتو سمجھا جانا چاہئے کہ یورپی لیڈر ٹرمپ کو کسی مفاہمت پر آمادہ کرلیں گے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے کا زیلسنکی کو مشورہ حقیقت پسندانہ اور معروضی صورت حال کے قریب تر ہے۔ یورپ ابھی تک امریکہ کے بغیر چلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ گو کہ متعدد لیڈروں کی طرف سے امریکہ کی شمولیت کے بغیر یورپ کے دفاع کا منصوبہ بنانے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔
یورپی لیڈروں کے لیے یہ حقیقت ہضم کرنا مشکل ہورہا ہے کہ نیٹو کا اتحاد اب بے معنی اور ناکارہ ہوچکا ہے اور امریکہ کے ساتھ 75 سالوں پر مشتمل بنیادی حقوق اور سلامتی کے معاملات پر تعاون و اشتراک ختم ہورہا ہے۔ اسی لیے یوکرین کی حمایت کا اعلان کرنے کے باوجود ہر لیڈر امریکہ کو ضروری قرار دیتا ہے۔ البتہ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ اگر کوئی ملک آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں تو اسے بدستور تعاون پر کیسے مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہی یورپی ملکوں کی پریشانی اور یہی یوکرینی صدر کی کمزوری ہے۔ دوسری صورت میں روس کیف میں اپنے حامی عناصر کی حکومت قائم کرکے اس علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرلے گا۔
اس افسوس ناک انجام کے بدلے میں یوکرینی معدنیات تک رسائی کے بعد امریکہ کے صدر ٹرمپ، زیلسنکی کو یہ پیشکش کررہے ہیں کہ بیس فیصد یوکرینی علاقے پر روس کا حق تسلیم کرلیا جائے اور باقی علاقے پر امریکہ کی سرپرستی میں وہ حکومت کرتے رہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ٹرمپ کب کسی بڑے فائدے کے لیے اس وعدے سے بھی منحرف ہوجائیں۔ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو وائٹ ہاؤس میں صدر زیلسنکی کو اپنا ملک دو بڑی طاقتوں کے حوالے کرکے خود واپس اسٹیج پر جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ