پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ مسلح جھڑپوں کے بعد دونوں طرف سے اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کامیابی کے دعوؤں کو یقین میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ بھارت میں ایک طرف پاکستان پر فتح یاب ہونے کا ’جشن‘ منایا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ اس جنگ سے ہونے والے سفارتی و سیاسی نقصان کا جائزہ لینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔
تاہم سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک گزشتہ سات دہائیوں میں پیدا ہونے والے فاصلے سمیٹنے اور باہمی اختلافات کم کرنے کے لیے کسی لائحہ عمل پر متفق ہو سکیں گے۔ دنیا اس بات پر متفق ہے کہ کسی بھی تنازعہ کی صورت میں جنگ کی بجائے بات چیت ہی سب سے اہم راستہ ہے لیکن بھارت دو باتوں پر اصرار کر رہا ہے جس کی وجہ سے یہ راستہ مسدود دکھائی دیتا ہے۔
ایک تو وہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے کسی تیسرے ملک کی ثالثی ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اختلافات دو ملکوں کے درمیان ہیں اور انہیں ہی مل کر حل کرنا چاہئیں۔ البتہ حالیہ جھڑپوں کو بند کرانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 10 مئی کو بھارت پر پاکستان کے جوابی حملوں کے بعد صورت حال اس حد تک سنگین ہو گئی تھی کہ دونوں ملکوں کو امریکی مداخلت پر فوری جنگ بندی پر راضی ہونا پڑا۔ اب بھارت یہ وضاحت کرتا ہے کہ جنگ بندی پاکستان کی درخواست پر ہوئی تھی۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ بار بار اصرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے ساری رات جاگ کر اس خطرناک تنازعہ کو ختم کرایا۔
بھارتی سفارت کاری کے لیے ٹرمپ کے یہ دعوے ایسی چھچھوندر بن چکے ہیں جو نہ نگلے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اگلے جاتے ہیں۔ امریکی صدر کے یہ بیانات پاکستان کے بارے میں بھارت کے مسلمہ سفارتی موقف کے برعکس ہیں۔ گزشتہ روز ایک بار پھر انہوں نے پاک بھارت جنگ بند کرانے کو اپنی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے تجارتی بائیکاٹ کی دھمکی دے کر دونوں ملکوں کو جنگ بند کرنے پر راضی کیا۔ اب بھارت کے ساتھ تجارتی ٹیرف کے سوال پر معاملات طے ہو رہے ہیں اور جلد ہی پاکستانی وفد بھی بات چیت کے لیے واشنگٹن آ رہا ہے۔ یوں تو امریکہ بھارت کا اسٹریٹیجک پارٹنر اور ٹرمپ، مودی کے ذاتی دوست ہیں لیکن بھارتی حکمرانوں کے لیے صدر ٹرمپ کا یہ طرز عمل قابل برداشت نہیں ہے کہ وہ ایک ہی سانس میں پاکستان اور بھارت کا ذکر کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت اس صورت حال کی عادی نہیں رہی۔ گزشتہ دو دہائی کے دوران اس نے دنیا بھر میں اپنا ایسا تاثر قائم کیا ہے کہ اس خطے میں پاکستان جیسے ممالک اس کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ فوجی طاقت اور معاشی لحاظ سے سب ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اور چین سے مقابلہ کے لیے تیار ہے۔
یوں تو امریکہ بھی بھارت کو چین ہی کے مقابلہ کے لیے تیار کرنا چاہتا تھا لیکن 7 سے 10 مئی کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد یہ تاثر قائم نہیں رہ سکا۔ نریندر مودی شاید سمجھتے ہوں کہ وہ اپنے جھوٹ اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے بھارتی عوام کے ایک طبقے کو شاید بھارتی کامیابی کا یقین دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن باقی ماندہ دنیا اس جنگ میں کسی ایک فریق کی کامیابی تسلیم نہیں کرتی۔ یہی مانا جا رہا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا لیکن وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ بھارتی فضائیہ پاکستانی ائرفورس کے سامنے بے حد کمزور ثابت ہوئی اور میزائل حملوں میں بھی پاکستان نے ترکی بہ ترکی جواب دے کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہے۔ اور اس کی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ جھڑپوں میں بھارتی فائٹر طیارے تباہ ہونے کے پاکستانی دعوؤں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ آج بھارتی فوج نے پہلی بار تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جھڑپوں میں اس کے کچھ لڑاکا طیارے تباہ ہوئے تھے۔ ہفتے کے روز سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ میں شرکت کے دوران ’بلوم برگ ٹی وی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں بھارتی مسلح افواج کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے کہا کہ ’اہم بات یہ نہیں ہے کہ طیارے گرائے گئے بلکہ یہ ہے کہ وہ کیوں گرائے گئے‘ ۔ شاید اسے ہی ہاتھ گھما کر ناک پکڑنا کہتے ہیں۔ البتہ معلومات روکنے اور عسکری جھڑپوں کے بارے میں سچ بتانے سے گریز کی پالیسی نے بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں کمزور ظاہر کیا ہے۔ پوری دنیا اس تماشے کی عینی شاہد بنی ہے۔
بھارت کی طرف سے اختیار کردہ دوسرا افسوسناک رویہ مذاکرات کے بارے میں اس کا پالیسی بیان ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے گزشتہ روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ ’مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کے ساتھ صرف اسی صورت میں بات ہوگی اگر وہ ان ’دہشت گردوں‘ کو بھارت کے حوالے کرے گا جن کے نام کئی سال پہلے پاکستان کو دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کشمیر کے بارے میں بات چیت ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا حصہ خالی کرنے کے حوالے سے ہوگی‘ ۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ ایک انتہاپسندانہ رویہ ہے جسے نئی صورت حال میں دنیا قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرنے والے ایک بھارتی وفد کے لیڈر ششی تھرور نے ایک حالیہ بیان میں پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کو ’حق دفاع‘ قرار دینے کی بھونڈی کوشش بھی کی۔ اس طرح بھارت درحقیقت اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہن کے بیانات کا چربہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اختیار کرتا ہے۔
درحقیقت پاکستان کے ساتھ چار روزہ جھڑپوں نے نہ صرف بھارتی فوج کی کمزوریوں کو عیاں کیا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال میں بھارت کی سفارتی پوزیشن بھی ناقص اور بے وقت کی راگنی لگتی ہے۔ امریکی ذرائع نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ دونوں ممالک تنازعہ حل کرنے کے لیے بات چیت کریں گے۔ پاکستان کھل کر بات چیت اور امن کی بات کر رہا ہے لیکن بھارت کسی بھی طرح مذاکرات سے فرار کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے حالانکہ شاید آنے والے دنوں میں یہ انکار اس کے لیے نئی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی فوج کے حجم سے دبانے میں ناکام ہے اور اگر اس نے کوئی نئی جارحیت کی تو اس کا فوری اور شدید جواب دیا جائے گا۔ اس صورت میں بھارت کے پاس بات چیت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچتا۔ لیکن بدقسمتی سے بھارتی لیڈر فی الوقت اس آپشن سے گریز کر رہے ہیں۔ حالانکہ جنگ بندی کے لیے امریکہ سے درخواست کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق کیا گیا ہو گا۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ اور دیگر ذرائع نے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا حوالہ دیا تھا تاکہ باہمی تنازعات حل ہو سکیں۔
بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد روکنا سب سے خطرناک اور تشویشناک رویہ ہے۔ پاکستان دو ٹوک الفاظ میں اپنے حصے کا پانی روکنے کو ’ریڈ لائن‘ قرار دے چکا ہے۔ بھارت نے اگر سندھ طاس معاہدے کو التوا میں ڈالنے کا بہانہ بنا کر پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کے لئے کسی ٹھوس منصوبے پر کام کا آغاز کیا تو پاکستان خاموشی سے اسے قبول نہیں کرے گا۔ پاکستان حالیہ جھڑپوں میں بھارتی طاقت کو آزما چکا ہے۔ اسی لیے پاکستانی لیڈروں کا لہجہ درشت اور سخت ہے۔ آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو غاصبانہ قرار دے کر اسے واپس لینے کی بات کرنے کے علاوہ واضح طور سے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی بھارتی حمایت سے ہوتی ہے۔ پاکستانی لیڈر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھی واشگاف الفاظ میں متنبہ کرچکے ہیں۔ البتہ نئی دہلی کی حکومت اگر مئی میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد علاقے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی اور اس حوالے سے دنیا کے ممالک کا بدلا ہوا رویہ قبول کرنے میں دیر کریں گے تو وہ علاقے میں کسی بڑی جنگ کا سبب بن سکتے ہیں۔
سنگا پور میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد مرزا نے برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ حالیہ پاک بھارت بحران نے مستقبل میں کشیدگی کے خطرے میں اضافہ کر دیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اس بار کچھ نہیں ہوا، لیکن آپ کسی بھی وقت اسٹریٹجک مس کیلکولیشن کو مسترد نہیں کر سکتے، کیونکہ جب بحران ہوتا ہے تو ردعمل مختلف ہوتے ہیں‘ ۔ انہوں نے بتایا کہ ’بھارت نے اس بار بین الاقوامی سرحدوں کا احترام نہیں کیا۔ اس طرح مستقبل میں کسی تنازعہ کی صورت میں حد بہت کم کردی گئی ہے۔ مستقبل میں ہونے والی کوئی لڑائی صرف متنازع علاقے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ پورے بھارت اور پورے پاکستان تک پھیل سکتی ہے۔ یہ ایک بہت خطرناک رجحان ہے‘ ۔
پاکستان کی طرف سے یہ ایک سنگین انتباہ ہے۔ اس وقت تک پاکستان بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بات کرتا ہے۔ لیکن اگر بھارت، پاکستان کا پانی بند کرنے کی ضد پر قائم رہتا ہے تو پاکستان کو اپنے حق کے لیے کسی انتہائی اقدام پر مجبور ہونا پڑے گا۔ مئی کی جنگ نے جو نئی سفارتی اور اسٹریٹیجک صورت حال پیدا کی ہے، اس میں بھارت اس تنازعہ میں صرف پاکستان سے ہی برسر پیکار نہیں ہو گا بلکہ اسے پوری دنیا کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
(بشکریہ :ہم سب)
فیس بک کمینٹ