بلوچستان میں دکی کے مقام پر ایک کان میں کام کرنے والے کارکنوں پر رات گئے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور بیس افراد کو شہید کردیا۔ اس حملے میں راکٹ لانچر اور گرینیڈ بھی استعمال کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا ۔ بعد میں لیویز اور پولیس نے آکر لاشیں تلاش کیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔
اس حملہ کے بعد قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی، وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے سخت بیانات کے ذریعے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے دعوؤں کو اس شدت سے دہرایا ہے جیسے یہ واقعہ پہلی بار رونما ہؤا ہے اور حکومت اس سے لرز گئی ہے۔ حالانکہ بلوچستان میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہؤا ہے۔ اگست میں علیحدگی پسند گروہوں نے صوبے بھر ہونے والے متعدد حملوں میں 50 کے لگ بھگ افراد کو ہلاک کیا تھا۔ اس کارروائی میں متعدد تھانوں اور چوکیوں پر بھی قبضہ کرکے امن و امان قائم کرنے والے اداروں کو للکارا گیا تھا۔
دکی میں حملہ کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں ایسے حملے بلوچستان کی علیحدگی کے لیے جد و جہد کرنے والے قوم پرست گروہ کرتے رہے ہیں۔ ان عناصر کو مبینہ طور پر بھارت کے علاوہ دیگر بیرونی ممالک کی سرپرستی حاصل ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے بات چیت کا دروازہ بند کیا ہؤا ہے۔ تاہم ان کارروائیوں میں شدت کے سبب حکومت پاکستان کو ضرور پریشان ہونا چاہئے۔ چار روز پہلے 7 اکتوبر کو کراچی ائیرپورٹ کے قریب ایک بس پر خود کش حملہ میں دو چینی انجینئر ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملہ کی ذمہ داری بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی۔ اس موقع پر یہ سوالات اٹھائے گئے تھے کہ ایک صوبے کے چھوٹے سے انتہا پسند گروہ کو چینی وفد کی آمد اور نقل و حرکت کے بارے میں حساس معلومات تک کیسے رسائی حاصل ہوئی۔ پاکستانی اور چینی حکام اس سانحہ کی تحقیقات کررہے ہیں۔ اس وقت بھی وزیر اعظم نے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے ویسے ہی بلند بانگ دعوے کیے تھے جن کا آج کے بیان میں اعادہ کیا گیا ہے۔
دکی میں دہشت گرد حملہ کے حوالے سے وقت کا تعین بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام آباد میں 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہورہا ہے۔ اس اجلاس میں دیگر ممالک کے علاوہ چین کا اعلیٰ سطحی وفد شریک ہوگا۔ بھارت نے وزیر خارجہ جے شنکر کی قیادت میں وفد اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کوئی بھارتی وزیر کئی برس کے بعد پاکستان آئے گا۔ اس اہم علاقائی اور عالمی ایونٹ کے موقع پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ خاص طور سے تشویش کا سبب ہے۔ کیوں کہ ان حملوں سے ملک میں انتشار اور بے چینی پیدا کرکے دنیا کو یہ پیغام دینا مطلوب ہے کہ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، اس لیے نہ تو حکومت پاکستان پر اعتبار کیا جائے یا یہاں سرمایہ کاری کا کوئی پروگرام بنایا جائے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان کی وفاقی یا صوبائی حکومت اس صورت حال کی سنگینی کا کس حد تک اندازہ کرنے میں کامیاب ہے۔ لیکن اعلیٰ ترین عہدیداروں کی طرف سے کوئی واقعہ رونبما ہونے کے بعد جو بیان جاری کیے جاتے ہیں، ان کی یکسانیت اور فرسودہ پن سے کم از کم یہ تو واضح ہوتا ہے کہ حکومتی حلقوں میں نئی سوچ کی شدید کمی ہے اور مسائل سے نمٹنے کے لیے پرانے اور آزمودہ طریقوں ہی کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ کسی دہشت گرد حملہ کے بعد بیان جاری کردینا اسی قسم کی روٹین کارروائی ہے جس کا عملی صورت حال پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا البتہ متعلقہ عہدیدار یہ بیان جاری کرکے اپنے تئیں عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرلیتے ہیں کہ وہ چوکنے ہیں اور حالات ان کے مکمل طور سے کنٹرول میں ہیں۔ حالانکہ حالات پر حکومت کی گرفت نہ ہونے کے سبب ہی یہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اسی یکسانیت اور زمینی سطح پر پالیسی تبدیل کیے بغیر دعوے کرنے کے مزاج سے یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کے اہم ترین عہدوں پر فائز افراد نے بھی معاملہ ’اللہ کے سپرد‘ کرکے حالات کے ساتھ بہتے رہنا قبول کرلیا ہے۔ یہ طرز عمل کسی تبدیلی اور بہتری کا اشارہ نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے گزشتہ دنوں سیاسی ہنگامہ آرائی کے نقصانات کے بارے پر ایک سوال پر کہا تھا کہ ’یہ اب پاکستان کا معمول ہے۔ اسے روزمرہ کا حصہ ہی سمجھنا چاہئے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ۔ دکی میں بیس افراد کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بیانات پڑھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت بھی شاید دہشت گردی کو پاکستان میں روز مرہ کا معمول سمجھ کر عوام کو صبر کرنے اور حوصلے سے کام لینے کا پیغام دے رہی ہے۔ البتہ اس رویہ سے ملکی سماج میں ہونے والی توڑ پھوڑ، ریاست پر اعتماد میں کمی اور معاشی سطح پر ہونے والے نقصانات کا اندازہ ممکن نہیں ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی ہم آہنگی اور انتہاپسند گروہوں کے خاتمے سے وابستہ ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری یہاں آسکے اور ملکی معیشت میں تیز ی پیدا ہو۔ لیکن حکومت کا سست رو اور کاہلانہ طرز عمل اس حوالے سے معاملات درست کرنے کے قابل نہیں ہے۔
یہ رویہ صرف سیاسی سطح ہی پر دیکھنے میں نہیں آتا بلکہ رائے عامہ بنانے اور عوام کو خبروں سے آگاہ رکھنے کا ذمہ دار میڈیا بھی اسی لاتعلقی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ آج دن کے دوران ہی نوٹ کیا جاسکتا تھا کہ صبح کے وقت ضرور دکی میں ہونے والی ہلاکتوں کی خبر نمایاں طور سے شائع یا نشر کی گئی لیکن جوں جوں دن گزرا تو دیگر خبروں نے اس المناک سانحہ کے بارے میں خبر کو پیچھے دھکیل دیا۔ بدقسمتی سے جن خبروں نے 20بیش قیمت انسانوں کی ہلاکت اور اس کے عوامل سے متعلق خبر کو ’غیر اہم‘ کردیا ، ان میں آئینی ترامیم کے بارے میں بیان بازی، چیف جسٹس کی متوقع ریٹائرمنٹ کے حوالے سے قیاس آرائیاں یا تحریک انصاف کے حوالے سے دو طرفہ بیان بازی شامل ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے ملکی میڈیا ایک صوبے میں دہشت گردی کی ہولناک خبر اور اس کے پس منظر کے حوالے سے بے گانگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور کن غیر ضروری خبروں کو ملکی سالمیت اور مستقبل سے جڑے ایک اہم سانحہ پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی مزاج درحقیقت ملک کے عوام میں مسائل سمجھنے، ان کی تہ تک پہنچنے اور حکام پر انہیں حل کرنے کا دباؤ بنانے میں کامیاب نہیں ہونے دیتا۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بیانات کو دیکھا اور پرکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کر نے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ انہیں نافذ کرنے کا کام تو اصولی فیصلے کرلینے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر صرف وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے بیان کا ہی جائزہ لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے جوش و جذبے کے اظہار کے لیے لفاظی کے استعمال سے دہشت گردی جیسے سنگین واقعہ کے بعد آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سرفراز بگٹی نےدکی میں بے گناہ مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے شدید اظہار برہمی کیا ۔ دہشت گردوں کے خلاف فوری و مؤثر کارروائی کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی کہ مذکورہ علاقے کو سیل کرکے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ دہشت گردوں نے ایک بار پھر غریب مزدوروں کو نشانہ بنا کر ظلم کی انتہا کردی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ’ دہشت گردوں کا ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ عام غریب مزدوروں کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دہشت گرد بزدل ہیں۔ دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ایک ایک بے گناہ کے قتل کا حساب لیں گے، بے گناہوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ دہشت گردوں کو ان بے گناہوں کا ناحق قتل لے ڈوبے گا۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے ان کے وجود سے دھرتی کو پاک کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حق کی ہوگی دہشت گردوں کو منہ کی کھانی پڑےگی‘۔
ایکھا جاسکتا ہے کہ ان تمام باتوں میں کسی ٹھوس اقدام کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ یا تو دہشت گردوں کو صلواتیں سنائی گئی ہیں یا بددعا دی گئی ہے۔ اور جاں بحق ہونے والے لوگوں کے لواحقین کو وہی تسلی دی گئی ہے جو گزشتہ دو تین دہائیوں سے حکام کا معمول بن چکا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ دکی میں بہنے والے خون ناحق کا حساب لینے اور قصور واروں کو سزا دینے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتا سکے کہ اس سے پہلے ان کی حکومت نے کتنے دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوائی ہیں۔ یا اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے منتخب اداروں کو کیسے متحرک کیا گیا ہے؟
بلوچستان کے حوالے سے موجودہ حکومت کی پالیسی گزشتہ کئی دہائی سے جاری حکمت عملی ہی کا تسلسل ہے۔ حکومت فوجی طاقت کے بل بوتے پر دہشت گرد و شدت پسند عناصر کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ اعلان کرتے ہوئے یہ اہتمام کرنا بھول جاتی ہے کہ صوبے کے عوام کی حفاظت کے لیے ان کا اعتماد حاصل کرنا، مسائل کو سمجھنا اور ان کے حل کے لیے اقدامات بھی بے حد ضروری ہیں۔ کوئی بھی عسکری کارروائی اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب حکومت اس علاقے کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو۔ بلوچستان کے عوام کا دل جیتنے کے لیے ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ حتی کہ دہشت گردی کے بعد اسلام آباد سے کسی وزیر یاوزیر اعظم کو کوئٹہ پہنچ کر دکھی لوگوں کی ڈھارس بندھانے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔
حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے اور انتہاپسندی کے خاتمہ کے لیے اگر فوجی کارروائی ہی مقصود ہے تو اسے عوام کی مرضی و منشا کے مطابق ہونا چاہئے۔ لیکن حکومت اور ریاستی ادارے تو پر امن احتجاج کرنے والے گروہوں کو بھی مورد الزام ٹھہرا کر بداعتمادی اور پریشانی میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔
(بشکریہ:جیونیوز)
فیس بک کمینٹ