ٹرمپ کی ہدایتکاری میں امریکی عرب اتحادی سرکس نے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اعلان جہاد کر تے ہوئے ایران کو مذ ہبی انتہا پسندی کا منبع قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کو اس انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک سو دس ارب ڈالروں سے زیادہ کا امریکی اسلحہ چاہئے اور امریکا کو سینکڑوں ارب ڈالروں کی سعودی انویسٹمنٹ یعنی مدد درکار ہے۔
صاف ظاہر ہے ایران کے خلاف جہاد کے لئے سعودی عرب کے اسلحہ خانوں کا بھرا ہونا اور امریکی معیشت کا طاقتور ہونا اشد ضروری ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی تھانیداری امریکی جدید اسلحہ کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ اب تو آقا امریکا نے اسرائیل اور سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ کی تھانیداری کا مشترکہ ٹھیکہ تفویض کر دیا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ امریکا کی سرپرستی میں عرب اسرائیل اتحاد نے مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ مستقبل میں اس جتھے میں بھارت کی شمولیت کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ عرب ممالک کے علاوہ اس سرکس کا حصہ بننے والے دیگر مسلم ممالک جن میں پاکستان بھی ایک ہے، ان کی حثیت ماسوائے ‘پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ یعنی جمعہ جنج نال سے زیادہ نہیں تھی۔
امریکی سرپرستی اور سعودی عرب کی سربراہی میں انتہا پسندی کے خلاف اتحاد کیسے اور کس مذہبی انتہا پسندی کے خلاف برسرپیکار ہوگا۔ اس کی ایک سمت ایران کے خلاف اعلان جہاد کرکے واضح کر دی گئی ہے۔ یہ اس کہانی کا ایک ظاہری پہلو ہے۔ کیا اتنی بڑی سرکس صرف ایران اور اس کی فکری ہمنوا تنظیموں کے اثرونفوذ کو محدود کرنے کے لئے لگانا ضروری تھی۔ ایسا سمجھنا شاید مناسب نہیں۔ ایشیا اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کی طرف نظر دوڑائی جائے تو یہ کانفرنس امریکا کی طویل المیعاد حمکت عملی کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ شاید امریکا دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔ عرب، اسرائیل اور بھارتی تکون چین کے روزافزوں بڑھتے ہوئے اثرونفوز کو محدود کرنے میں امریکا کے حلیف بنتی نظر آرہی ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں بھارتی ریاست نے گزشتہ سرد جنگ کے دوران اپنے تاریخی اتحادی روس سے رخ موڑ کر امریکا سے پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کر دی ہیں۔ کیونکہ چین کے ہزاروں بلین ڈالر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے ، سی پیک جس کا ایک حصہ ہے، کو بھارت اپنے معاشی، سیاسی اور توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتا ہے۔
رہی مذہبی انتہا پسندی کی بات تو تاریخی حقیقتیں چھپائے نیہں چھپتیں۔ مسلم ممالک میں انتہا پسندی کیسے پنپی اور اس کو ہوا دینے میں کس مذہبی فکر اور فرقے نے بنیادی کردار ادا کیا یہ کوئی ایسا مشکل سوال نہیں جس کا جواب ڈھونڈنے میں کوئی دقت درپیش ہو۔ بہت دور کی بات نہیں کرتے۔ سرد جنگ کے زمانے میں مصر، عراق، شام، لیبیا، الجزائر، انڈونیشیا کے علاوہ کئی مسلم ممالک میں قوم پرست حکومتیں قائم تھیں۔ ان ممالک کے حکمران امریکا اور سویت یونین کے مابین کشمکش میں اپنا وزن سویت یونین کے پلڑے میں ڈالتے تھے۔ ان حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور ان کے تختے الٹانے کے لئے کس اسلامی فکر کا سہارا لیا گیا اوران قوتوں کو کن ممالک کی کھلی اور خفیہ حمایت حاصل رہی۔ کس اسلامی فکر کی نمائندہ مذہبی اور سیاسی قوتوں نے اسلام کا نام سیاست میں استعمال کرکے سیاسی اقتدار کی جنگ کو اسلام اور کفر کی جنگ میں بدلنے کی کوششیں کیں۔ مسلم عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کیا۔ جواب تو ایک ہی ہوگا، وہابی و سلفی فکر کی علمبردار تنظیمیں جن میں اخوان المسلیمون سب سے نمایاں نام ہے۔
اس مذہبی سیاسی جماعت کا فکری خمیر وہابی اورسلفی انتہا پسندی سے اٹھا تھا۔ اس کے پشت پناہ اور مالی معاون سعودی عرب اور امریکا ہی تھے۔ ان کی جدوجہد کا اولین مقصد امریکا مخالف قوم پرست حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنا اور اسلام کے نام پر امریکا کی حامی حکومتیں قائم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اسی اسلامی فکر کے پیروکاروں نے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں اسی نوعیت کی اسلامی تحریکوں کو سعودی عرب اور امریکا کی پشت پناہی سے پروان چڑھایا۔ انڈونیشیا میں اسی انتہا پسند مذہبی فکر کے پیروکاروں نے امریکا مخالف قوم پرست دور کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور لاکھوں معصوم عوام کا ناحق خون بہایا۔ سویت یونین کےخلاف افغان جنگ کو اسی اسلامی فکر نے اسلام اور کفر کی جنگ میں بدل دیا۔ القاعدہ، طالبان، داعش، حزب التحریر اور ان جیسی بیسیوں مذہبی جنگجو دہشت گرد تنظیمیں اسی مذہبی فکر کا شاخسانہ ہیں۔
پاکستان، افغانستان، ترکی، شام، لیبیا، عراق اور دیگر مسلم ممالک میں اسی مذہبی فکر پرعمل پیرا تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث پائی جاتی ہیں۔ لندن، مانچسٹر، پیرس، برلن اور دیگریورپین ممالک میں خودکش اور دہشت گرد حملوں میں ملوث وہابی اور سلفی انتہا پسند گروہ اعتراف جرم کر چکے ہیں۔
آج نہ صرف مسلم ممالک بلکہ یورپ اورامریکا بھی وہابی اور سلفی فکری انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ آج ہرسمت پھیلی مذہبی انتہا پسندی کی فکری، مالی اور سیاسی آبیاری امریکا، سعودی عرب اور ان کے حواریوں نے کی۔ امریکا اور سعودی عرب کا نامزد کردہ سب سے بڑا دہشت گرد ایران ہے جس کا حمایت یافتہ کوئی فرد یا گروہ آج تک کسی مسلم یا مغربی ملک میں دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث نہیں پایا گیا۔ جہاں تک حزب اللہ اور حماس کا تعلق ہے ان کا وجود اسرائیل کے لئے تو تشویش کا باعث ہو سکتا ہے مگر یہ تنظیمیں کسی ملک کے خلاف دہشت گردی میں ملوث نہیں پائی گئیں۔
چین کے ہزاروں ارب ڈالروں کے معاشی ترقی کے منصوبوں میں پاکستان، روس، ایشیا اورافریقہ کے کئی ممالک کی شرکت امریکا کی معاشی اورسیاسی اجارہ داری کے لئے بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ امریکا دنیا پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ عرب اتحادی سرکس امریکی بغل بچوں کا اجتماع تھا۔ جس کا کام امریکی پشت پناہی سے عوام دشمن غیرجمہوری بادشاہتوں کو بچانا اوراس کے بدلے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا شامل ہے۔ ایسا کہنا شاید غلط نہیں ہے کہ امریکا دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ عربوں، اسرائیل اور بھارت نے آنے والے حالات کے مد نظر اپنی اپنی راہیں متعین کرنا شروع کردی ہیں۔ عرب ممالک اوراسرائیل تو ہمیشہ سے امریکا کے لے پالک رہے ہیں۔ مگر بھارت کی صورت میں اسے ایشیا میں ایک بڑی طاقت کا ساتھ میسر آتا نظرآ رہا ہے۔ پاکستان گو مگو کی صورت حال سے دوچار ہے۔ پاکستان کے لیے چین کا ساتھ چھوڑنا تو انتہائی مشکل ہے۔ امریکا سے دوری بھی ممکن ہے مگر سعودی عرب اور اس کے ہمنوا عرب ممالک سے چھٹکارا پانا جان جوکھوں کا کام لگتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
آنے والا وقت ملک کے لئے آسانیاں اور خوشحالی بھی لا سکتا ہے مگر دیکھتے ہیں وقت کا دھارا پاکستان کو کس سمت بہا کر لے جاتا ہے۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے
فیس بک کمینٹ