وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ’تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں خواہ وہ چپراسی ہو یا وزیر اعظم۔ تاہم کسی کی عزت نفس مجروح نہیں ہونی چاہئے۔‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف حسین نواز کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ تحقیقات کے لئے فرشتے کہاں سے لائیں۔ ہمیں اسی نظام کے اندر رہ کر کام کرنا ہے‘۔ عدالتی بینچ کے سربراہ کا یہ بیان یا تبصرہ ان کے اپنے ہی مقرر کردہ اصول سے متصادم ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہو نا چاہئے۔ اس اصول کے مطابق قانون کو وزیر اعظم کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا چاہئے جو ایک چپراسی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن عملی طور پر یوں لگتا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم ایک سیاسی اور قانونی چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور قانون ان کے ساتھ ’خصوصی ‘ سلوک روا رکھ رہا ہے۔
آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کیانی نے ایک گھریلو ملازمہ طیبہ پر ہونے والے تشدد کے معاملہ کی سماعت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے چیف جسٹس کو اس کیس کے لئے کسی دوسرے جج کو مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس معاملہ میں ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر ملوث ہیں۔ تاہم راجہ خرم علی کے وکیل نے آج مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کو بتایا کہ انہیں ان پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے معاملہ میں راجہ خرم علی کے خلاف تحقیقات کرچکے ہیں اور انہیں قصور وار بھی ٹھہرا چکے ہیں۔ اس لئے وہ اس معاملہ کی سماعت کے اہل نہیں ہیں۔ متعلقہ جج نے اس اعتراض کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو مقدمہ سے علیحدہ کرلیا۔ سپریم کورٹ کے سامنے حسین نواز نے بھی جے آئی ٹی کے دو ارکان بلال رسول اور عامر عزیر کے خلاف ایسا ہی اعتراض اٹھایا تھا ۔ ان دونوں پر سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے علاوہ مسلم لیگ (ق) سے تعلق کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ایک رکن پر تویہ الزام بھی ہے کہ وہ پنجاب کے سابق گورنر میاں اظہر کے قریبی عزیز ہیں جو مسلم لیگ (ق) کے بانی ارکان میں شامل تھے اور اب پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم لیڈر ہیں۔ واضح رہے کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف کرپشن کے الزامات کو عدالت میں لانے کا سہرا تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کے سر ہی باندھا جا سکتا ہے۔
درخواست گزار کے اعتراض پر نہ تو متعلقہ دو ارکان نے خود علیحدہ ہونے کا حوصلہ کیا اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے فاضل جج اسے اصول انصاف کے بنیادی تقاضوں سے متصادم سمجھتے ہیں۔ عدالت میں اعتراض کے حقائق سے انکار نہیں کیا گیا۔ لیکن جسٹس اعجاز افضل کا یہ تبصرہ معنی خیز ہے کہ ’فرشتے کہاں سے لائیں‘۔ عدالت بھلے فرشتے لاسکے یا نہ، لیکن اسے یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ وزیر اعظم ہو یا چپراسی، اسے قانون کے مطابق انصاف ملے گا۔ زیر نظر معاملہ میں بظاہر ملک کے وزیر اعظم کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرکے یہ اصول سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن قانون کی بالا دستی اور برابر ہونے کا اصول سختی کے مظاہرے کا نہیں اس کے مساوی اطلاق کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس اصول کا تقاضہ تو یہی ہے کہ اگر جے آئی ٹی کے دو ارکان نواز شریف کے خلاف مقدمات کی تحقیقات کرتے رہے ہیں یا ان کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو سیاسی طور سے نواز شریف کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں تو انہیں اس کیس سے علیحدہ کیا جائے۔ اگر فرشتوں کی تلاش کی بات کرکے اس اصول کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو قانون کے سب کے لئے برابر ہونے کا دعویٰ ناقابل فہم ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس معاملہ پر کافی وقت بیت چکا ہے۔ یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں کوئی واضح بات سامنے آسکے گی۔ عدالت اس معاملہ پر جس نتیجے پر بھی پہنچے ، اس کے صرف سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے نہ تو نظام شفاف ہو گا اور نہ ہی قانون کی بالادستی ثابت ہوگی۔ مختلف گروہ اس فیصلہ کو اپنے اپنے طور پر پیش کریں گے اور اسی طرح اس کی تفہیم کی جائے گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معاملہ سے ملک میں کرپشن کے خاتمہ کا کوئی مؤثر نظام بھی استوار ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس لئے فاضل جج صاحبان اگر ساٹھ دن کی مقررہ مدت کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے واقعی قانون کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کریں تو انہیں یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ فرشتے کہاں سے لائیں۔
فیس بک کمینٹ