میرا عزیز دوست خالد احمد جہاں زبردست شاعر تھا وہاں بذلہ سنجی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ جملہ کستا بھی تھا اور جملہ خوشدلی سے سنتا بھی تھا۔ وہ ایک اخبار میں کالم لکھتا تھا، ایک دفعہ پندرہ بیس روز تک اس کا کالم نظر نہ آیا اور اتفاق سے ان دنوں میں اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی، ملاقات پر میں نے پوچھا یار تم آج کل کالم کیوں نہیں لکھ رہے۔ یہ سن کر اس نے پاؤ ں پر سے پتلون اوپر اٹھائی تو دیکھا پاؤ ں پر پلاسٹر چڑھا تھا، بولا فریکچر ہو گیا تھا، اس لئے کالم نہیں لکھ رہا۔ یہ سن کر میری رگِ ظرافت پھڑکی اور میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں، ساری عمر تم پاؤ ں سے کالم لکھتے رہے اب ہاتھ سے لکھنا شروع کر دو!‘‘
بات دراصل یوں ہے کہ یکم فروری کو میری سالگرہ تھی، جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ لوگ جمع تھے، جنہوں نے میری تعریف میں اتنا جھوٹ بولا کہ دل خوش ہو گیا۔ کیک کاٹتے وقت ماضی کی مقبول ترین ہیروئن اداکارہ نشو نے بآواز بلند کہا کاش قاسمی صاحب میرے ساتھ کسی فلم میں بطور ہیرو آئے ہوتے۔ بس یہ بات میرے دوستوں کو کھا گئی اور انہوں نے کچیچیاں بھرتے ہوئے میری طرف دیکھا، میں سمجھ گیا کہ آج میری خیر نہیں چنانچہ تقریب کے اختتام پر بینکوئٹ ہال سے باہر جاتے ہوئے میرا پاؤ ں قالین میں الجھا اور میں گر گیا۔ دوستوں نے اٹھایا تو پتہ چلا پاؤ ں میں فریکچر ہو گیا ہے۔ اگلے روز پروفیسر ڈاکٹر ارشد رانا نے پاؤ ں اور ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا دیا اور میرا کالم کھٹائی میں پڑ گیا۔ آج مجھے خالد احمد یاد آیا اور میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی ہاتھ سے کالم لکھنا شروع کر دوں، سو یہ میری پہلی کاوش ہے، دیکھتے ہیں کہ پاؤ ں سے کالم بہتر لکھا جاتا ہے یا ہاتھ سے لکھے ہوئے کالم سے بھی گزارا ہو جاتا ہے؟
چلیں تفنن برطرف، کالم تو لکھنے بیٹھ گیا ہوں، مگر میری توجہ اپنے پاؤ ں کے فریکچر کی تکلیف سے تو ہٹ گئی ہے مگر بہت سے دوسرے فریکچر یاد آنا شروع ہو گئے ہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تُو ہی تُو ہے، والی صورتحال کا سامنا ہے۔ مجھے تو اب ہر طرف فریکچر ہی فریکچر نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک وقت تھا ساری دنیا میری جولان گاہ تھی اور اب صورتحال یہ ہے کہ میں گھر کے اندر واکر پر پھدک پھدک کر چلتا ہوں اور اپنی حالت پر خود ہی ہنستا ہوں مگر اس وقت مجھے زیادہ ہنسی آتی ہے جب میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمارا سارا نظام ہی پھدک پھدک کر چل رہا ہے۔ سب اداروں کو فریکچر ہو گیا ہے، کسی ادارے کی کل سیدھی نہیں رہی۔ انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے، اگر کسی ادارے کی کل سیدھی ہے تو وہاں بہترین کام کرنے والے سہمے بیٹھے ہیں کہ جانے کب کوئی کبڑا انہیں سیدھا چلتا دیکھ کر ان کی ریڑھ کی ہڈی پر ضربِ کاری لگا دے۔ بدنام زمانہ لوگ آپ کے سروں پر سوار کر دیئے گئے ہیں۔ اگر آپ ان یزیدیوں کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے تو آپ کے خیموں کو آگ لگا دی جاتی ہے، یہ سب کچھ صحیح ہو سکتا تھا اگر ہمارا نظامِ عدل ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوا ہوتا مگر ہمارے آمروں نے ہماری یہ آخری امید بھی ہم سے چھین لی۔ نظامِ عدل میں بھی بہتری آ سکتی تھی اگر ہمارے درمیان سچ لکھنے اور سچ بولنے والے لوگ اکثریت میں ہوتے، مگر افسوس جھوٹ، افتراء اور بدزبانی کی منڈی میں بہت کم لوگ سچ کا علم بلند کئے ہوئے ہیں اور انہیں غدار قرار دیا جاتا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ حالات بہتر ہوتے ہی جھوٹ کے بیوپاری رائج الوقت سچ کی قیمت وصول کر کے ’’سچ‘‘ کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر اپنی نئی منڈی سجا لیں گے اور اس ’’منڈی‘‘ میں ایک سے بڑھ کر ایک ’’ہیرا‘‘ ہو گا۔
دوستو! میں اپنی اس عادت سے بہت تنگ ہوں کہ کالم لکھنے بیٹھتا ہوں ہلکا پھلکا سا، شگفتہ سا مگر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، کے مصداق نظر ان ناسوروں کی طرف بھی اٹھ جاتی ہے جو ہمارے معاشرے کو ایک عرصے سے لاحق ہیں اور ان دنوں یہ زیادہ پھیلتے نظر آ رہے ہیں۔ بہرحال میں نے ساری دنیا کا کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہوا، اور آپ کو بھی زیادہ فکر کی ضرورت نہیں، کھائیں، پئیں، عیش کریں البتہ جب کبھی اکٹھے بیٹھیں تو معاشرے کی حالت پر کف افسوس ضرور ملیں جس طرح انصاف کی دھجیاں اڑانے والے، پیرا شوٹ کے ذریعے میڈیا میں لینڈ کرنے والے، اربوں روپے قرض کے نام پر ہڑپ کرنے والے، قومی خزانے سے دادا جی کی فاتحہ کرانے والے، کھربوں کا فراڈ کرنے والے اور اسی طرح کے دوسرے ملک دشمن افراد کی طرح فرصت کے اوقات میں مل بیٹھ کر معاشرے کی بربادی پر کف ِ افسوس ضرور مل لیا کریں۔ میں نے کافی دنوں سے اپنے پاؤ ں کے فریکچر کی وجہ سے یہ کام نہیں کیا کل اگر کچھ دوستوں کو فرصت ملے تو میری طرف تشریف لائیں تاکہ ایک مجلس عزا منعقد کر کے ان یزیدیوں پر لعنت بھیجیں جو پاکستان کو کربلا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ واضح رہے اس مجلس عزا میں خود یزیدی بھی شریک ہو سکتے ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ)