دماغ میں خیالات کا جو ایک تانتا بندھا رہتا ہے اورسوچیں پریشان کرتی ہیں۔۔۔۔سوچتی ہوں ڈئیر ڈائری کہ قلم اٹھاؤں اور اپنی منتشر سوچوں کو کبھی یکجا کرنے کی کوشش کروں ۔ یہ سوچیں عجیب ہوتی ہیں کمبخت پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔رات کے ایک بجے اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور تو سوچ رہی ہوں ڈائر ی کہ تم ہی سے کیوں نہ باتیں کر لوں۔جانتی ہو کہ نیند نہ آنا کوئی بیماری نہیں۔۔بلکہ بیماری تو تب ہے جب نیند آنکھوں سے دور ہو اور خیالات بیری کے کانٹوں جیسے انسانی دماغ پر حملہ کریں۔زندگی خدا کی نعمت ہے اور اس نعمت سے منہ موڑے رکھنا کفران نعمت ہے۔ مگر زندگی نعمت کے ساتھ ساتھ ایک تلخ طلسم حقیقت بھی ہے۔زندگی نرم اتنی کہ جیسے نوبیاہتا دلہن کے قدموں میں پڑے نرم و ملائم پھولوں کی پتیاں۔۔اور تلخ ایسی کہ جیسے زمین پر ہر طرف کانٹے ہی اگ آئے ہوں۔لوگ کہتے ہیں کہ اگر پیٹ کا دوزخ خالی ہو تو تبھی خیالات بے وقت تنگ کرتے ہیں۔لیکن ڈائری میں کہتی ہوں کہ نہیں وقت بے وقت خیالات اس وقت تنگ کرتے ہیں جب انسان کسی نا خوشگوار تجربات سے گزرا ہو۔معلوم ہے کہ جب سوچیں حملہ آور ہوتی ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے؟بالکل ایسا جیسے کسی نے وقت کو ٹھہر جانے کا حکم دے دیا ہو۔تم یہ مت سمجھ لینا کہ گھڑیال رک جاتے ہیں نہیں ہرگز نہیں گھڑیال یونہی ٹک ٹک کرتا ہے۔اگر کوئی چیز رکتی ہے تو وہ ہے انسانی روح جو اس وقت اپنے ماضی کے اوراق کو پلٹنا شروع کر دیتی ہے۔ انسان ماضی کی کتاب کی جلد کو ایسے اکھیڑتا ہے جیسے کوئی درزی پرانے کپڑوں کو ادھیڑتا ہے۔ وقت بے وقت کی سوچ انسان کو ایک جگہ منجمد کر دیتی ہے بظاہر تو وہ کھاتا پیتا ہے۔۔لیکن درحقیقت اس کی روح ایک نقطہ پر اٹک جاتی ہے۔ ڈئیر ڈائری میری باتیں تمہیں شائد فضول لگیں ۔۔۔۔ لیکن میں تمہیں پھر بھی کہوں گی کہ میرے شعور میں کچھ لاشعور ی سوچیں ماضی کی بھول بھلیوں میں اٹکی ہوئی ہیں جسے میں نے آدھا ادھورا لکھ دیا۔
فیس بک کمینٹ