بظاہر نئے اور پرانے زمانے میں بہت فرق نظر آتا ہے لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو فرق کچھ اتنا زیادہ نہیں۔ مثلاً پرانے زمانے میں غلامی کا باقاعدہ ’’ادارہ‘‘ موجود تھا۔ انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ گاہک آتے تھے اور مال پسند کر کے لے جاتے تھے۔ اس کے بعد ان غلاموں کی پیشانیاں داغ دی جاتی تھیں تاکہ اگر وہ فرار ہونے کی کوشش کریں اور کہیں بھی پناہ گزیں ہوں تو پہچانے جائیں۔ ان دنوں یہ ہے کہ گو انسانوں کی باقاعدہ منڈیاں نہیں لگتیں تاہم ان کی خرید و فروخت کا کاروبار آج بھی کھلے بندوں ہوتا ہے بلکہ آج کے مہذب دور میں تو غلاموں کی کوالٹی بھی بہتر ہوگئی ہے۔ چنانچہ ان دنوں بلند پایہ سیاستدان ، دانشور، علماء اور میڈیا پرسنز میں بھی کام کا غلام مل جاتا ہے اس میں ’’ٹیلنٹ‘‘ پہچاننے والی نظر ہونا چاہئے۔ آج فرق یہ سامنے آچکا ہے۔ پہلے غلاموں کی پہچان کا بندوبست کیا جاتا تھا لیکن اس کے برعکس نئے زمانے کے آقا کوشش کرتے ہیں کہ ان کے غلام پہچانے نہ جائیں۔
چونکہ میں بھی غلام معاشرے کا ایک غلام فرد ہوں، اپنے آقاؤں کا نمک کھانے والوں میں سے ہوں اور ان سے بھی زیادہ ان کا وفادار ہوں، اس لئے میرا نمک حلالہ مشورہ یہ ہے کہ اب غلاموں کو چھپانے کی بجائے ہر شعبہ زندگی میں موجود خاص الخاص غلاموں کی پہچان کا انتظام کیا جائے۔ کیونکہ جب کوئی نئی حکومت آتی ہے یہ غلام اپنے پہلے آقاؤں سے مل جاتے ہیں اور اس کے بعد جب اس نئی حکومت کے دن بھی گنے جاتے ہیں تو یہ پھر سے نئے آقائوں کے لئے چشم براہ نظر آنے لگتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو یہ غلام کسی کے وفادار نہیں ہوتے اس لئے یہ بات ہر دور کے آقاؤں کے حق میں جاتی ہے کہ وہ ان غلاموں کی پہچان کا بندوبست کریں تاکہ ہر دور میں پوری چھان پھٹک کے بعد ان کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔
اس ضمن میں یہ احتیاط لازمی ہے کہ عوام الناس کو غلاموں کی پہچان نہ ہونے پائے کیونکہ اگر عوام ان غلاموں کو پہچان جائیں تو پھر یہ غلام کسی صورت میں بھی اپنے آقاؤں کے کام کے نہیں رہتے۔ تاہم شناخت کے لئے کوئی ایسا کوڈ ضرور اختیا رکیا جانا چاہئے جو صرف آقاؤں کے علم میں ہو۔ اس ضمن میں میرے پاس کچھ تجاویز ہیں مثلاً دانشوروں میں موجود غلاموں کے حوالے سے میرا مشورہ ہے کہ انہیں کسی زمانے میں رائج پیلی ٹیکسیوں جیسی پیلے رنگ کی قمیص اور کالی شلوار پہننے کا حکم دیا جائے۔ اگر پرانے دور کا شخص انہیں ’’ٹیکسی‘‘ سمجھ کر حقارت کی نظروں سے دیکھے تو اس سے ان کی عزت نفس کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی کیونکہ غلاموں میں عزت نفس نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔
میڈیا پرسنز کے پردے میں جو چند ایک غلام کا کردار ادا کررہے ہیں ان کے حوالے سے میری تجویز یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر میٹر لگائے جائیں تاکہ نئے آقاؤں کو پتہ چل سکے کہ اس سے پہلے وہ کتنا چل چکے ہیں۔ خاندان غلاماں کے علمائے کرام کے لئے یہی تجویز کروں گا کہ ان کے گلے میں ’’امیر کی اطاعت تم پر واجب ہے‘‘ کے کلمات تعویذ کی صورت میں لٹکا دیئے جائیں کہ وہ یوں بھی عوام کو اس طیب حکم کی غلط تعبیر بتاتے ہیں۔
غلام سیاست دانوں کے بارے میں میری تجویز یہ ہے کہ ان کے لئے ایک باقاعدہ گیٹ اپ مقرر کیا جانا چاہئے اور وہ کچھ یوں کہ یہ لوگ باقاعدہ مونچھیں رکھیں۔ کاندھے پر ’’پرنا‘‘ اور سر پر ترچھی ٹوپی رکھیں کہ یہ لوگ نہ صرف خود غلام ہیں بلکہ ہر دور میں اپنے آقائوں کے لئے نئے غلام بھی تلاش کرتے ہیں اور اس ’’دلالی‘‘ کی مزید قدر افزائی کی جاتی ہے۔
یہ کالم میں نے تیسری دنیا کے آقاؤں کے لئے لکھا ہے اور اس میں جو تجاویز ہیں وہ انتہائی کنفیڈینشل ہیں لہٰذا عوام سے درخواست ہے کہ وہ یہ کالم نہ پڑھیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارے اردگرد موجود ان غلاموں کی پہچان ہو جائے گی جس سے میری تجاویز کا مقصد غارت ہو کر رہ جائے گا۔کیونکہ ان تجاویز سے مقصود آقاؤں کو محض ہر دور کے غلاموں کی شناخت کرانا ہے۔ عوام میں ان کی شناخت پریڈ کرانا نہیں ہے۔
آخر میں معروف شاعر عرفان صادق کے شعری مجموعہ ’’یہی لمحہ محبت ہے‘‘ میں سے میری پسند کی ایک غزل
ضرورتوں کے کئی محاذوں پہ کٹ رہا تھا
میں ریزہ ریزہ بہت سے حصوں میں بٹ رہا تھا
بدن میں یکدم یہ پیاس کیسی سلگ اٹھی ہے
یہ کون دریا مزاج مجھ سے لپٹ رہا تھا
میں ایک مدت سے ضبط کے پل صراط پر ہوں
کہ میری آنکھوں میں کوئی ساگر الٹ رہا تھا
مری رگوں میں رواں دواں تھا عجیب نشہ
سخن سرائے سے جس گھڑی میں پلٹ رہا تھا
کہ جیسے رنگوں کی قوس بننے لگی ہو مجھ میں
وہ اس طرح میرے بازوؤں میں سمٹ رہا تھا
اذاں کی اٹھنے لگی تھیں دل سے صدائیں عرفانؔ
غبارِ وہم و گماں سے جس دم میں اٹ رہا تھا
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ