قارون بہرام جہاں ایک مالدار باپ کا بیٹا تھا وہاں وہ خود بھی ایک مالدار بیٹے کا باپ تھا۔ قارون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیدائش چیچہ وطنی میں ہوئی تھی اور اس کے بچپن کا ایک حصہ چیچہ وطنی کی گلیوں میں” چیچوچچ گنڈیریاں“کھیلتے گزرا تھا تاہم اس کا والد جلد ہی ترک سکونت کرکے لاہور آن بسا اور اس نے گلبرگ میں بیس کنال کی ایک کوٹھی تعمیر کی جس کا نام اس نے کاٹیج رکھا۔ قارون کا باپ راتوں رات امیر بنا اور وہ اپنی اس خوش قسمتی کا راز کسی کو نہیں بتاتا تھا۔ لاہور میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اس نے قارون بہرام کو ایک اعلیٰ اسکول میں داخل کرایا جہاں سالانہ ٹیوشن فیس لاکھوں میں تھی۔ یہاں اس کا شمار انتہائی درد مند طلبہ میں ہوتا۔ قارون کی مس نے ہوم روک کے لئے ”غریب آدمی“ کے موضوع پر اپنی کلاس کو مضمون لکھنے کو کہا تو سب سے اچھا مضمون قارون بہرام کا قرار پایا۔ جس نے لکھا تھا کہ … میرے ہمسائے میں ایک غریب آدمی رہتا ہے جس کی کوٹھی صرف ایک کنال کی ہے۔ اس کے پاس ایک پرانے ماڈل کی کار ہے اور اس کے گھر صرف تین کمرے ایئرکنڈیشنڈ ہیں۔ راوی بیان کرتا ہے کہ مس نے یہ مضمون کلاس میں پڑھ کر سنایا تو قارون کے کلاس فیلوز آبدیدہ ہوگئے بلکہ یہ مضمون پڑھتے پڑھتے خود مس کی آواز بھی بھرا گئی۔
غریب عوام کے ساتھ قارون کا یہ رابطہ اور ہمدردیاں جوانی اور پھر بڑھاپے تک قائم رہیں۔ غریبوں کے ساتھ اس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی اسے جوش آتا وہ پانچ پانچ دس دس لاکھ روپے کے بیئرر چیک کاٹ کر شہر کے مرکز میں واقع اپنے کسی 20منزلہ پلازہ کے کسی فلور پر سے نیچے سڑک پر پھینک دیتا اور خود اوپر سے لوگوں کے ہجوم کو ان چیکوں پر جھپٹتے دیکھا کرتا۔ قارون بہرام کا حافظہ بچپن ہی سے خاصا کمزور تھا چنانچہ یہ چیک جن کے ہاتھ آتے بدقسمتی سے ان کے کام نہ آتے کیونکہ کمزور حافظے کی بنا پر وہ ان پر دستخط کرنا ہمیشہ بھول جاتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اپنے کمزور حافظے پر قابو پاکر لاکھوں روپے کے بیئرر چیک اپنے دستخطوں کے ساتھ ہوا میں اچھال دیئے مگر کمزور حافظے ہی کی بنا پر قارون نے جس بنک کے چیک کاٹے اس میں اس کا اکاﺅنٹ ہی نہیں تھا۔
میں نے قارون کے اس سوانحی خاکے کے آغاز میں اجمالاً یہ تذکرہ کیا تھا کہ قارون جہاں ایک مالدار باپ کا بیٹا تھا مگر یہ بیٹا اپنے باپ کی وجہ سے مالدار نہیں ہوا تھا بلکہ اپنی ذاتی محنت کی بنا پر اس نے یہ دولت کمائی تھی کیونکہ قارون اپنے نظریے پر سختی سے کاربند تھا کہ عملی زندگی میں غریب اور امیر کو ترقی کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔ کسی کو محض اس لئے زندگی کی دوڑ میں آگے نہیں نکل جاناچاہیے کہ وہ منہ میں سونےکا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا اور کسی کو محض اس لئے پیچھے نہیں رہ جانا چاہیے کہ اس نے فاقوں میں آنکھ کھولی تھی۔ چنانچہ قارون نے یہ بات اپنے بیٹے کی عملی زندگی کے آغاز ہی میں اس پر واضح کردی۔ تاہم اس نے بطور والد اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے چند کروڑ روپے کی رقم یہ کہہ کر اپنے بیٹے کے حوالے کی کہ وہ اس کا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرے۔ قارون کے بیٹے نے اس معمولی سی رقم سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور کچھ عرصے میں اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر اس کاشمار بھی اپنے والد ہی کی طرح ملک کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ چنانچہ راوی کے مطابق قارون بہرام کو اس امر پر فخر تھا کہ اس کا بیٹا بھی ”سیلف میڈ“ ہے۔
قارون کی نظر میں قانون کا بہت احترام تھا لہٰذا اس نے اپنی دولت کبھی نہیں چھپائی چنانچہ اس کی دولت کا سراغ لگانے کے لئے حکومتی عملے کے ارکان جب گاہے گاہے اس کے پاس آتے تو وہ ان کے سامنے دولت کے ڈھیر لگا دیتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ان حلقوں میں بہت مقبول تھا اور بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، لیکن اپنی تمام تر دولت، تمام تر مقبولیت اور تمام تر عزت کے باوجود قارون بہرام کی طبیعت میں انکسار حد درجہ کو تھا۔ وہ خود کو حتی المقدور عام انسانوں کی سطح پر رکھتا چنانچہ انہی کی طرح مینو میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ناشتہ کرتا، دوپہر کا کھانا کھاتا اور ڈنر کرتا۔ خود کو ان کی سطح پر رکھنے کےلئے رات کو سونے کی کوشش بھی کرتا۔ ہوا، روشنی اور دھوپ سے وہ بھی فیض یاب ہوتا تاکہ انسانوں سے اس کا برابر کا رشتہ برقرار رہے۔ ایک عام آدمی کےساتھ خود کو IDENTIFYکرنے کے لئے اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قربانی دی یعنی ایک روز چپ چاپ مر گیا۔ حالانکہ بستر علالت پر ڈاکٹروں کا پورا بورڈ اور میز پر ہزاروں روپے کی دوائیاں موجود تھیں، قارون بہرام کی انسانی برادری کے نظریے کے ساتھ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے مرتے مرتے یہ وصیت کی کہ اس کی قبر سٹینڈرڈ سائز کی ہو، یعنی تعویذ کے نیچے اس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی عام قبروں کے مطابق ہو، چنانچہ اس کی وصیت کے احترام میں ایسا ہی کیا گیا۔
اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی بیس بیس کنال کے محلات میں رہنے والے لوگ عام آدمی کی طرح مرتے ہیں، فرق بس یہی ہوتاہے کہ عام آدمی علاج معالجے کی سہولتوں سے محرومی کی بنا پرمرتا ہے اور امیر آدمی اپنے علاج پر اپنے خزانوں کا منہ کھولنے کے باوجودمرنے پر بادلِ نخواستہ راضی ہو جاتے ہیں۔ غریب آدمی مرتا ہے تو اس واحد کمانے والے فرد کی موت کی وجہ سے اس کے لواحقین بھی مرنے کے قریب ہو جاتے ہیں، مگر امیر آدمی کے لواحقین پہلے سے زیادہ امیر ہو جاتے ہیں۔ تاہم امیر آدمی اپنے تمام تر کروفر کے باوجود مرنے کے بعد اپنے محل نما گھر میں رہنا پسند نہیں کرتابلکہ غریبوں سے محبت کی وجہ سے ان کے قبرستان میں ان کے پہلو میں دفن ہو جاتا ہے۔ اس کی قبر کی لمبائی چوڑائی بھی کم و بیش غریب آدمی کی قبر جتنی ہی ہوتی ہے۔ اللہ اکبر! امیر آدمی خواہ جتنا مرضی مغرور ہو، مگر اس کے دل میں غریبوں کے لئے محبت بہرحال موجود ہوتی ہے۔
جاتے سال 2018ءکا تحفہ اپنے دوستوں کیلئے
آخر میں علی اکبر عباس کی ایک غزل
قفس میں کیا نظر آئے کسی دمساز کی صورت
فقط پر کھولنے سے کیا بنے پرواز کی صورت
قیامت کی ہے خاموشی، کلیجہ منہ کو آتا ہے
کسی صورت نظر ائے، کسی آواز کی صورت
برائے نام آزادی ہے پر قینچے پرندوں کی
نکالی ہے نئی صیاد نے اغماز کی صورت
نباہی جا رہی ہے، انتباہی حالتوں میں بھی
رمق بھر زندگی، ہے ان دنوں اعجاز کی صورت
وہ عبرتناک منظر، سامنے آ جائے نہ پھر سے
ڈراتی ہے مجھے، حالات کے انداز کی صورت
علائے حق، روایت ہے، عطائے زخم کرتی ہے
سجا لیتے ہیں سینے پر جنہیں اعزاز کی صورت
نیا سال مبارک
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ