اس ملک میں کھانچوں کے‘ گھپلوں کے اور مال بنانے کے بے شمار طریقے اور فارمولے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ ”ٹھیکہ“ ہے۔ ٹھیکوں کا طریقہ کار ایسا ہے کہ جسے نوازنا ہو‘ اس کو جی بھر کر نوازا جا سکتا ہے۔ ویسے تو بذات ِخود ٹھیکہ ہی اب براہ راست نوازنے کا ایک قانونی ذریعہ ہے۔ چھوٹے پیمانے سے بڑے پیمانے تک۔ گلیوں اور نالیوں کی تعمیر سے لیکر نیلم جہلم پراجیکٹ تک۔ گٹر ڈالنے سے لیکر موٹروے تک اور سکولوں میں مرمت سے لیکر نندی پور تک۔ ہر طرف ایک سے بڑھ کر ایک طلسم ہوشربا ہے۔ بندہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے کہ اس ملک کو لوٹنے کے کتنے طریقے ایجاد کر لئے گئے ہیں اور طریقے بھی وہ ‘جو سرا سر قانون کے دائرے کے اندر ہیں اور ان پر گرفت کوئی نہیں۔
نیلم جہلم پراجیکٹ 2008ءمیں شروع ہوا۔ تب اس پراجیکٹ کی تعمیر کا تخمینہ 925ملین امریکی ڈالر تھا۔ گو کہ اس پراجیکٹ کا بالکل ابتدائی تخمینہ 1989ءمیں صرف 167ملین امریکی ڈالر تھا۔ تب ڈالر صرف 42روپے کا تھا‘ یعنی اگر یہ پراجیکٹ 1989ءمیں شروع ہو کر وقت ِ مقررہ پر مکمل ہو جاتا‘ تو اس پر کل سات ارب روپے خرچہ آتا‘ تاہم یہ پراجیکٹ وقت مقررہ پر شروع ہی نہ ہو سکا اور 2008ءمیں ‘یعنی تقریباً 20سال بعد شروع ہوا۔ تب اس کی لاگت کا تخمینہ 925ملین ڈالر‘ یعنی (2008ءکے ریٹ کے مطابق) 55ارب ہو چکا تھا‘ پھر یہ لاگت بڑھ کر 2.89بلین ڈالر‘ یعنی دو ارب نواسی کروڑڈالر ہو گئی‘اگر ڈالر کا ریٹ 100 روپے فی ڈالر لگایا جائے‘ تو یہ لاگت دو کھرب نواسی ارب روپے ہو گی‘ یعنی تعمیر شروع ہونے سے تکمیل کے دوران دس سال میں یہ لاگت 55 ارب روپے سے تقریباً تین کھرب روپے تک پہنچ گئی‘ یعنی لاگت سوا پانچ گنا بڑھ گئی۔ یہ سب ٹھیکے میں Escalation نامی Clause کے تحت ہوا اور یہی وہ کھانچہ ہے‘ جو ہر ٹینڈر کے کھلنے سے لیکر تکمیل تک کرشمے دکھاتا رہتا ہے اور اس کھانچے کے طفیل ٹھیکیدار اور ٹھیکہ دینے والا‘ دونوں موج میلا کرتے رہتے ہیں۔
نندی پور کا قصہ بھی ایسا ہی ہے۔ 425میگاواٹ کے اس پاور پراجیکٹ میں جو کچھ ہوا‘ وہ کسی اور ملک میں ہوتا تو قیامت آ جاتی ‘مگر ہم مجموعی طور پر قیامت پروف ہیں‘ نہ ہمیں قیامت کا خوف ہے اور نہ دوزخ کا ڈر۔ ہم اسی دنیا کو جنت بنانے میں مصروف ہیں‘ لیکن یاد رہے دنیا کو جنت بنانے سے مراد صرف اور صرف اپنی دنیا ہے‘ کہیں اس سے قوم مراد نہ لے لی جائے۔
حکومت ِپنجاب نے جنوری 2008ءمیں چین کی کمپنی ڈونگ فانگ سے اس پراجیکٹ کی تعمیر کا معاہدہ کیا۔ ابتدائی معاہدہ‘ پاکستان کے 23ارب روپے‘ یعنی 329ملین امریکی ڈالروں میں طے ہوا‘ پھر وہی کام شروع ہو گیا ‘جو ہوتا آیا ہے۔ کبھی ادائیگی میں تاخیر ہوئی اور کہیں کوئی اور مصیبت‘ لیکن درمیان میں سب سے شہرہ آفاق اڑچن وزارت ِقانون و انصاف نے ڈال دی۔ پراجیکٹ اٹھارہویں ترمیم کے تحت پنجاب حکومت نے اپنے بل پر بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ وفاقی حکومت کی وزارت نے درمیان میں ”کھچ“ مار دی اور مشینری کراچی کی بندرگاہ پر پھنس گئی۔ صوبائی اور مرکزی حکومت کی کھینچا تانی میں‘ جس میں شنید یہ ہے کہ مرکزی وزارت کے مدار المہام اس پراجیکٹ سے اپنا ”جیب خرچ“ بھی نکالنے پر تل گئے کہ آخر ان کا بھی تو اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے پر دل مچل رہا تھا۔ سو‘ معاملہ پھنس گیا اور یہ معاملہ پورے دو سال تک پھنسا رہا۔ وزارت ِقانون نے PPRAرولز کا پھڈا ڈال کر معاملے کو ایسا گھمایا کہ پراجیکٹ کی لاگت جو پہلے ہی کئی گنا بڑھ چکی تھی‘ مزید آسمان تک چلی گئی اور ڈونگ فانگ کمپنی پراجیکٹ چھوڑ کر بھاگ گئی۔ 2013ءمیں ڈونگ فانگ کمپنی سے دوبارہ گفت و شنید کی گئی اور کام دوبارہ شروع ہو گیا‘ لیکن اسی بدبخت Escalation کے قانون کے تحت اب اس کی لاگت تیئس ارب سے بڑھ کر ساڑھے ستاون ارب ہو گئی۔ اکتیس مئی 2014 ءکو اس پراجیکٹ کا افتتاح میاں نواز شریف‘ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے کیا‘ تاہم یہ پراجیکٹ چار دن بھی سکون اور تسلی کے ساتھ نہ چلا۔ مہنگے مینول کے باعث اس کی فی یونٹ پیداوار اتنی زیادہ ہو گئی کہ سب کے کڑاکے نکل گئے۔ یہ لاگت ناقابل ِیقین بیالیس روپے فی یونٹ تھی۔ ان ساری خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی اس پراجیکٹ کا ایم ڈی کیپٹن (ر) محمد محمود تھا‘ جو ڈی ایم جی کا گریڈ انیس کا افسر تھا اور اس کا سابقہ تجربہ ”بیلداری“ یعنی پودوں وغیرہ کی دیکھ بھال تھی۔ موصوف پی ایچ اے سے ڈائریکٹ اس ٹیکنیکل پراجیکٹ پر لاکھوں روپے تنخواہ کے عوض مامور کر دیے گئے۔ موصوف اور اس کے والد صاحب پر میاں صاحبان کی مہربانیوں کا سلسلہ جنرل ضیاءالحق کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ موصوف ضیاءالحق کے پسندیدہ قاری کا بیٹا تھا اور اسی میرٹ پر فوج سے ڈی ایم جی میں بھیج دیا گیا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے ‘جس پر کبھی پھر سہی۔
اب ملتان‘ فیصل آباد موٹروے کو دیکھیں۔ دس سال ہو گئے ہیں اور یہ پراجیکٹ ابھی تک زیر تعمیر ہے۔ بارہ مرتبہ اس کی تکمیل کی ڈیڈ لائن گزر چکی ہے۔ ملتان تا خانیوال سیکشن تعمیر ہو کر چل رہا ہے۔ خانیوال تا عبدالحکیم ابھی ”ہنوز دلی دور است“ والی صورتحال کا شکار ہے۔ عبدالحکیم تا ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ہر روز افتتاح کا سنتے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ تا گوجرہ کا تو افتتاح جاتے جاتے افراتفری میں شاہد خاقان عباسی کر گئے تھے‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ یہ افتتاح شدہ سیکشن بھی ابھی عوام کے لیے نہیں کھولا گیا۔ یہی حال عبدالحکیم تا لاہور سیکشن کا ہے۔ نہ موجودہ حکومت مطلوبہ فنڈز مہیا کر رہی ہے اور نہ ہی پراجیکٹ مکمل ہو رہا ہے۔اب اس صورت حال میں وہی ہو رہا ہے۔جو ہوتا آیا ہے‘ یعنی پراجیکٹ کی تاخیر کی بنیادی وجہ ‘چونکہ فنڈز کا بروقت نہ ملنا ہے ‘لہٰذا اس ”معقول“ وجہ کے طفیل وہی بدبخت شق ‘یعنی Escalation Clause امدادی لشکر بن کر ا? گی ہے۔ دس سال میں اس سیکشن کی تعمیراتی لاگت47 ارب روپے سے بڑھ کر90 ارب ہو گئی ہے۔ اس سیکشن نے آخری ڈیڈ لائن کے مطابق اکتیس دسمبر کو چالو ہو جانا تھا۔ آج (کالم لکھنے کی تاریخ) اکتیس دسمبر ہے اور ہنوز یہ سیکشن زیر تعمیر ہے۔ اس کی نئی ڈیڈ لائن بارے اس عاجز کو اول تو علم ہی نہیں اور اگر علم ہوتا بھی‘ تو اس نے کون سا اس ڈیڈ لائن پر چالو ہو جانا تھا۔ بارہ بار یہ ڈیڈ لائن گزر چکی ہے اور تیرہ کا ہندسہ تو ویسا بھی منحوس سمجھا جاتا ہے؛اگر ٹھیکوں میں لوٹ مار سے اس ملک کے اربوں روپے بچانے ہیں تو پراجیکٹس کی بروقت تکمیل کو لازم قرار دینا ہوگا۔ بصورت ِدیگر ٹھیکیدار سے لیکر ٹھیکہ دینے والے سارے سلسلے کی موج لگی رہے گی اور ہر پراجیکٹ اپنی اصل لاگت سے کئی گنا زیادہ لاگت پر بنتا رہے گا۔ کک بیک‘ کمیشن اور رشوت کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر جاتا رہے گا۔ ملک قرضوں پر چلتا رہے گا اور جے ا ٓئی ٹیز کی رپورٹیں عدالتوں میں ناکافی ثبوت ثابت ہوں گی۔
ٹھیکوں کے ریٹ بھی دوبارہ نئے سرے سے طے کرنے چاہئیں۔ سرکاری ریٹس کے منہ پر جرمن سفیر کا ٹویٹ ایک طمانچہ ہے‘ لیکن وزیروں کا یہ عالم ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے اس ٹویٹ کے حوالے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹویٹ کر کے جرمن سفیر نے حد سے تجاوز کیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے تحت چالیس لاکھ روپے فی کلو میٹر میں بارہ انچ موٹائی والی اعلیٰ کوالٹی کی بننے والی سڑک کے مقابلے میں سرکاری ٹھیکے کی مد میں کمتر درجے کی چھ انچ موٹائی والی سڑک کی ایک کروڑ روپے میں تعمیر ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ