ایک شخص بال بکھرائے، گریبان کے بٹن کھولے، ریستوران میں داخل ہوا اور اس نے چہرے پر غم کی پرچھائیاں مزید نمایاں کرتے ہوئے بیرے سے کہا ’’مجھے کھانا اور ہمدردی کے دو بول چاہئیں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد بیرا واپس آیا اس نے کھانا میز پر سجایا اور کہا ’’یہ رہا آپ کا کھانا اور ہمدردی کے دو بول یہ ہیں کہ یہ کھانا دو دن کا باسی ہے، نہ ہی کھاؤ تو اچھا ہے‘‘۔
دوسرا لطیفہ بھی ہوٹل ہی سے متعلق ہے اور وہ یوں کہ جب ویٹر نے میز پر کھانا سجایا تو گاہک نے دیکھا کہ پلیٹ میں جو سالم مرغ ہے، اس کی ایک ٹانگ غائب ہے، اس پر اس نے ویٹر کو دوسری ٹانگ بھی مہیا کرنے کو کہا مگر ویٹر نے معذرت کی اور کہا ’’سر! معاملہ دراصل یہ ہے کہ کل یہ مرغا ایک مرغے سے الجھ پڑا چنانچہ لڑائی میں اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی۔ امید ہے آپ معاف فرمائیں گے‘‘۔
گاہک نے یہ سن کر اپنی عینک کے شیشوں کا زاویہ درست کیا اور کہا ’’یہ تو سب ٹھیک ہے مگر تم یوں کرو کہ یہ ہارا ہوا مرغا اٹھا کر لے جاؤ اور اس کی جگہ کوئی (WINNER) مرغا لے آؤ‘‘۔
یہ دونوں لطیفے مجھے بلاوجہ یاد نہیں آئے بلکہ گزشتہ روز اپنے ایک حرماں نصیب دوست سے ملاقات کے نتیجے میں ان لطیفوں کی یاد آئی ہے۔ یہ دوست مجھے اسی طرح بال بکھرائے اور گریبان کے بٹن کھولے سر راہ ملا اور اس نے اسی طرح چہرے پر غم کی پرچھائیاں مزید نمایاں کرتے ہوے کہا ’’مجھے کھانا اور ہمدردی کے دو بول چاہئیں‘‘۔
میں نے پوچھا ’’کیوں کیا بات ہے۔ خیر تو ہے؟‘‘
کہنے لگا ’’آج بھی بیوی نے گھر میں کھانا پکانے سے انکار کر دیا ہے۔ نیز میرے کھانے پر اصرار کرنے کے نتیجے میں اس نے آج بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ہے لہٰذا مجھے کھانا اور ہمدردی کے دو بول چاہئیں‘‘۔
یہ سن کر میں اسے ایک ریستوران میں لے گیا اور کھانے کا آرڈر دیا، جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو میں اسے اپنے ایک انقلابی دوست کے پاس لے گیا اور کہا ’’یہ تمہارا کیس ہے۔ تم نے اسے روٹی نہیں دینی، صرف ہمدردی کے دو بول کہنے ہیں۔ بسم اللہ کرو، شروع ہو جاؤ‘‘۔
یہ سن کر میرے انقلابی دوست نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’’کامریڈ! تم عظیم آدمی ہو، حوصلہ نہ ہارو، اپنی جدوجہد جاری رکھو، بیوی اگر تمہاری بات نہ مانے تو اس کے سامنے دھرنا دو!‘‘
میرے اس دوست نے حوصلہ نہ ہارنے اور جدو جہد جاری رکھنے کا مقصد خدا جانے کیا لیا کہ چند دنوں بعد میں نے اسے بازار میں لنگڑا کر چلتے دیکھا اور پوچھا ’’خیر تو ہے!‘‘ بولا ’’ہاں خیر ہے مگر کل میری بیوی نے ایک دعوت میں ویٹر سے کہا یہ مرغ اٹھا کر لے جاؤاور اس کی جگہ کوئی ’’ونر‘‘ مرغا لاؤ۔ اس کے ساتھ اس نے میری طرف اشارہ کیا چنانچہ ویٹر نے مجھے اٹھا کر باہر پھینک دیا‘‘۔
بات کچھ اور ہو رہی تھی مگر میں لوگوں کے خانگی معاملات کا تذکرہ یونہی درمیان میں لے آیا حالانکہ گھروں میں اسی طرح کی چھوٹی موٹی باتیں تو ہو ہی جایا کرتی ہیں بلکہ سیانے کہتے ہیں کہ معمولی قسم کے لڑائی جھگڑوں سے تو میاں بیوی کی باہمی محبت بڑھتی ہے۔ سیانے ہی کیا، یہ بات تو ایک شاعر نے بھی کہی ہے کہ
بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے
جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر
چنانچہ میرے ایک دوست تو باہمی محبت میں اضافہ کے لئے دوسرے چوتھے روز گھر میں ’’اٹ کھڑکا‘‘ کرتے ہیں بلکہ دوسرے چوتھے روز منعقد ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کے قل ہوتے ہوتے رہ جاتے ہیں کیونکہ خیر سے دونوں کے حوصلے ’’زیادہ‘‘ ہیں۔ اسی طرح کے ایک شوہر کی بیوی ایک بار غصے سے پائوں پٹختی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور شوہر سے کہا ’’اس ڈرائیور کےبچے کو ’’فوراً‘‘ نوکری سے نکال دو، اس نے تین چار بار ایکسیڈنٹ کیا ہے اور میں ہر مرتبہ مرتے مرتے بچی ہوں‘‘۔ یہ سن کر شوہر نے کہا ’’کوئی بات نہیں ڈارلنگ اسے ایک موقع تو اور دو!‘‘
لطیفہ سنانے والے نے یہ لطیفہ یہیں تک سنایا ہے، یہ نہیں بتایا کہ اس پر زوجہ محترمہ نے اپنے شوہر نامدار کو ’’بحررجز‘‘ میں کتنی سنائیں؟ البتہ ان صاحب کا معاملہ مختلف ہے، جنہیں ان کے ایک دوست نے کہا ’’یارا تم تو کہتے تھے تمہاری بیوی بڑی بزدل ہے لیکن گزشتہ رات کو تو اس نے مار مار کر چور کا بھرکس نکا دیا‘‘۔ ’’میرے عزیز! اسے غلط فہمی ہوئی تھی، وہ مجھے چور سمجھ بیٹھی تھی‘‘۔
ظاہر ہے اس قسم کا بیان دینے کے لئے خاصی ’’وسیع القلبی‘‘ کی ضرورت ہے اور یہ وسیع القلبی اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب میاں بیوی وسیع تر مفاد یعنی باہمی محبت بڑھانے کی خاطر پلٹ کر جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے کی ادائے دل نوازی سیکھ جائیں!
یہ ادائے دلنوازی ہمارے دھرنے بازوں نے اپنے کسی استاد سے سیکھ لی تھی اور یہ مسلسل پلٹ کر جھپٹتے اور جھپٹ کر پلٹتے ہیں اور پوری قوم بے بسی سے انہیں دیکھ رہی ہے!
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ