مہمان کو خدا کی رحمت کہا جاتا ہے اور کچھ لوگوں پر اس رحمت کا نزول بے حساب ہوتا ہے مگر جس طرح ہم پانی ہوا دھوپ اور قدرتی طور سے عطا کردہ اس نوع کی دیگر نعمتوں کا شکریہ یوں ادا نہیں کرتے جیسا کہ ان کا حق ہے۔ بلکہ اسی طرح ان دنوں متذکرہ رحمت یعنی مہمان کو بھی یوں خوش آمدید نہیں کہا جاتا جیسے کہا جانا چاہئے۔ بلکہ ہوتا یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر اللہ کے ناسپاس بندے پچھلے دروازے سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کوشش میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی کہ مہمان بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
ممکن ہے اس ’’کفران نعمت‘‘ کا ایک سبب روز افزوں کی مہنگائی ہو، دوسرا سبب یہ ہو کہ اب آنا بھی مہان کے بس میں اور جانا بھی اس کے بس میں ہوتا ہے ۔ ایک ایسا ہی مہمان مع اہل وعیال جب کسی کے ہاں جاکر لنگرانداز ہوا اور پھر وہاں سے ٹلنے کا نام نہ لیا تو میزبان اور اس کے بیوی بچوں کا ناک میں دم آگیا۔ ایک روز میزبان کے بچے نے کسی بات پر رونا شروع کیا تو رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔جب وہ بہلائے نہ بہلا تو ماں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور ایک کونے میں لے جا کر اس کے آنسو پونچھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’’چپ کر میرے لال یہ مہمان جالیں تو پھر اکٹھے بیٹھ کر روئیں گے۔‘‘
مہمانوں کے ضمن میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان پر اٹھنے والے اخراجات سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ دانے دانے پر مہر لگی ہوتی ہے مگر اب یہ حقیقت بھی رفتہ رفتہ کچھ اور رنگ اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ ان دنوں یار لوگ مہر جیب میں لئے پھرتے ہیں اور جہاں کوئی دانہ نظر آتا ہے جھٹ اس پر مہر داغ دیتے ہیں اور پھر اس کے حقدار بن بیٹھتے ہیں ۔ایک اسی طرح کا مہربدست گھوڑے پر سوار ہو کر کسی گاؤں میں اپنے عزیز کے ہاں مہمان ہوا میزبان نے زبانی کلامی اس کی بہت آئو بھگت کی شام کو کھانے کا وقت ہوا تو اس نے گھر والی سے کہا کہ آج گوشت کا ناغہ ہے لہٰذا بھنڈی نہ پکالی جائے۔اس نیک بخت نے کہا ٹینڈے گھر میں موجود ہیں لہٰذا وہی پکا دیتی ہوں۔
میزبان نے گھر میں مرغیاں پالی ہوئی تھیں اور ان میں سے ایک اس وقت صحن میں چہل قدمی کر رہی تھی مہربدست مہمان نے یہ ’’دانہ ‘‘ دیکھا تو بولا ’’آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ کھانے کے لئے میرا گھوڑا ذبح کرلیں میں مرغی پر سوار ہو کر واپس گاؤں چلا جاؤں گا۔‘‘
غالباًیہ مہمانوں کے اس استحصالی رویے ہی کا نتیجہ ہے کہ اب میزبان بھی بہت سیانے ہو گئے ہیں انہوں نے ایسی مروت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس کے باعث ان کا اپنا بجٹ خسارے میں جانا شروع ہو جائے گزشتہ دنوں میں ساہیوال میں مقیم اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لئے تقریباً نوبجے شب اس کے گھر پہنچا میرا ارادہ وہاں رات قیام کرنے کا تھا اس نے فوراً میرے لئے کھانا تیار کرایا جب میں کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد ٹانگیں پسار کر ذراسستانے لگا تو دوست نے ازراہ محبت کہا ’’میری خواہش تو یہ ہے کہ تم آج میرے ہاںقیام کرو مگر تمہاری سہولت اس میں ہے کہ راتوں رات واپس بیوی بچوں کے درمیان پہنچ جاؤ اب جس طرح تمہاری سہولت ہو ۔‘‘کچھ میزبان جو مزید سیانے ہوتے ہیں وہ ہر ایک کو اپنے ہاں مدعو کرتے نظر آتے ہیں اور ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اپنی آمد کی تاریخ سے ضرور مطلع کر دینا تاکہ تمہیں پریشانی نہ ہو۔سادہ لوح مہمان ایسا ہی کرتا ہے چنانچہ اسے فوراً یہ جواب موصول ہوتا ہے کہ اپنی آمد ذرا کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دو کیونکہ اس تاریخ کو مجھے ایک سرکاری کام کے لئے شہر سے باہر جانا پڑ رہا ہے ۔‘‘۔مہمان کی پیش قدمی کو پسپائی میں تبدیل کرنے کےلئے ایک طریقہ کار وہ بھی ہے جو کسی نے اپنے متوقع مہمان پر آزمایا تھا اور سینٹ پر سینٹ کامیابی حاصل کی تھی ۔ایک مہان نے آنے سے پہلے میزبان کے گھر کا ایڈریس دریافت کیا تو اس نے پوری طرح ایڈریس سمجھانے کے بعد کہا کہ جب تم میرے مکان کے دروازے تک پہنچ جاؤ تو اسے پاؤں سے ٹھوکر مار کر کھولنا وہ کھل جائے گا۔اس کے بعد ایک کمرہ آئے گا اسے بھی پاؤں سے ٹھوکر لگانا اور وہ فوراً کھل جائے گا۔بعدازاں دائیں جانب مڑنے کے بعد جو کمرہ نظرآئے اسے ٹھوکر لگانا میں اس کمرے میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں گا۔‘‘ مہمان نے یہ سب سنا تو حیرت سے پوچھا کہ آخر سب دروازوں کو ٹھوکر سے کھولنے کی کیا ضرورت ہے یہ کام تو ہاتھ سے بھی ہو سکتا ہے اس پر میزبان نے کہا ہاتھ سے کیسے ہو سکتا ہے تم اتنی دیر بعد میرے گھر آ رہے ہو تمہارے دونوں ہاتھوں میں تو تحفے تحائف ہوں گے سو ظاہر ہے دروازے پاؤں ہی سے کھولنا پڑیں گے!‘‘اور غالباً مہمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ الٹا میزبان کو دوسرے روز فون موصول ہوا جس میں مہمان نے معذرت کی تھی کہ وہ طے شدہ تاریخ کو اس کے ہاں نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ اسے ایک سرکاری کام کے لئے کسی دوسرے شہر جانا پڑ رہا ہے !‘‘
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ