سوشل میڈیا پر نگراں وزیر اعلیٰ حسن عسکری صاحب کے حوالے سے جگتوں کا سلسلہ جاری ہے، ان کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ’’عسکری‘‘ وزیر اعلیٰ کہا جا رہا ہے۔ڈاکٹر حسن عسکری کامخفف ’’ڈی ایچ اے ‘‘بنا دیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی جگتوں کا بازار گرم ہے مگر عسکری صاحب کو اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے، اب جس کرسی پر وہ بیٹھے ہیں وہاں تو بہت کچھ سننا پڑتا ہے ؟
جہاں تک ان کی تقرری کا تعلق ہے یہ پہلا موقع ہے کہ تحریک انصاف والوں نے خاصی عقلمندی سے کام لیتے ہوئے تین نام ایسے پیش کئے جن سے مسلم لیگ کسی صورت اتفاق نہیں کر سکتی تھی ۔وہ چاہتی تھی کہ مسلم لیگ انکار کرے اور یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے، ایسا ہی ہوا چنانچہ الیکشن کمیشن نے حسن عسکری صاحب کو نامزد کر دیا جس پر مسلم لیگ اتنی ہی اپ سیٹ ہوئی ہے جتنی پہلے تین ناموں پر ہوئی تھی مگر اب تیر کمان سے نکل چکاہے ،اب تو اسے یہ ستم برداشت کرنا ہی پڑے گا۔جہاں تک حسن عسکری صاحب کے بارے میں میری رائے ہے وہ یقیناً ایک پڑھے لکھے انسان ہیں میں ان کو ٹی وی پر دیکھتا اور سنتا رہا ہوں۔مگر وہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود جمہوریت کے حق میں نہیں ہیں، چنانچہ وہ انتخابات میں تاخیر کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں بطور ایک تجزیہ نگار ان کا یہ حق ہے کہ وہ ہر قسم کی رائے رکھ سکتے ہیں اوراس کا اظہار بھی کر سکتے ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ اس کے قائد سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھی بہت خلاف ہیں اور اس حوالے سے کئی بار اپنی رائے کا اظہار کرچکے، جبکہ نگراں وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہی اس لئے پڑتی ہے کہ وہ بالکل نیو ٹرل ہو اور اس کا جھکاؤ کسی جماعت کی طرف محسوس نہیں ہونا چاہئے چنانچہ بہتر تھا کہ حسن عسکری بطور ایک اسکالر اپنی عزت پر اکتفا کرتے اور نگراں وزیر اعلیٰ کا دم چھلا اپنے نام کے ساتھ نہ لگواتے مگر اب جبکہ وہ یہ عہدہ بخوشی قبول کر چکے ہیں اور دوستوں سے مبارک بادیں بھی وصول کر رہے ہیں ان کے لئے بہتر ہو گا کہ وہ مسلم لیگی قائد خاقان عباسی صاحب کی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ عسکری صاحب کی بطور وزیر ا علیٰ نامزدگی کے بعد الیکشن کے نتائج مشکوک ہو چکے ہیں اور یوں اس امر کا امکان موجود ہے کہ اگر عسکری صاحب کی وزارت اعلیٰ میں دھاندلی ہوئی تو شاید الیکشن کے نتائج ہی تسلیم نہ کئے جائیں اور میری دعا ہے کہ یہ تاریخی بدنامی حسن عسکری صاحب کے حصے نہ آئے۔
آپ میرے ’’بچگانہ‘‘ طرز بیان پر نہ جائیں یقین کریں میں کافی بڑا ہو گیا ہوں مگر ہر طرح کے طعنے اور معنےسننے اور ن لیگ کی حکومت ہی میں ایک نہایت گھٹیا پروسیس سے گزرنے کے باوجود میں ایک بار پھر یہ کہوں گا کہ پاکستان کو نواز شریف ایسا وزیر اعظم اور شہباز شریف ایسا وزیر اعلیٰ بہت عرصے کے بعد ملا تھا مگر وہ زندگی کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں اور اس کے باوجود ان کے عزم اور استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستانی قوم کے بہت سے دیرینہ مسائل حل کئے اور یہ اس کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک جتنے سروے سامنے آئے ہیں ان میں مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہی سامنے آیا ہے ۔حالانکہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ مسلم لیگ اور اس کی قیادت کے خلاف صف آرا نظر آتا ہے تاہم اس حوالے سے ایک عجیب وغریب رویہ سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ دانشوروں اور عوام کی ایک بڑی تعداد جن کا مسلم لیگ اور اس کی قیادت سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا وہ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں سامنے آگئی ہے ۔میڈیا میں ان دنوں غیر اعلان شدہ سنسر شپ بھی عائد ہے چنانچہ یہ طبقہ اپنے دل کی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکال رہا ہے ۔میں سمجھانے والا کون ہوں اور میری سننی بھی کس نے ہے مگر میں انتہائی مودبانہ طور پر گزارش کر رہا ہوں کہ ملک میں آزاد فضا پیدا کی جائے تاکہ جس کی جو رائے ہے وہ مہذب انداز میں اس کا اظہار کر سکے ۔ملک میں پیدا کی گئی گھٹن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بعض اوقات سوشل میڈیا پر ننگی گالیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں جو لوگ یہ گندی زبان استعمال کرتے ہیں وہ کسی کی خدمت نہیں کرتے۔ فوج، عدلیہ، پارلیمینٹ یہ ہمارے مقدس ادارے ہیں اور ان کی تکریم ہم سب پر یکساں طور پر واجب ہے!
بات ذرا دور نکل گئی میں نگراں وزیر اعلیٰ حسن عسکری صاحب کی تقرری کی بات کر رہا تھا اب مسلم لیگ کو چاہئے کہ وہ یہ کڑوا گھونٹ پی لے۔ اپنا نقطہ نظر تو وہ بیان کر ہی چکی ہے اب اسے بغیر کسی مایوسی کے بلکہ پہلے سے زیادہ یقین کے ساتھ میدان میں اترنا چاہئے اور الیکشن کی تیاریوں کو آخری شکل دے دینی چاہئے۔حسن عسکری صاحب سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام کالے حروف کے بجائے سنہری حروف میں لکھوانے کے لئے شفاف الیکشن کے حوالے سے اپنے فرائض ادا کریں اس صورت میں ان کے علم وفضل کے علاوہ ان کی دیانت اور امانت بھی ان کی عزت میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ورنہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے انسان اپنے ساتھ صرف نیک اعمال ہی بطور زاد رہ لے جا سکتا ہے۔ امید ہے وہ اپنے ایک ہم عصر کے مشورے پر عمل کریں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ