تحریک انصاف کے چئرمین عمران خان نے اعظم سواتی کی گرفتاری پر ایک بار پھر سپریم کورٹ کو پکارا ہے۔ اور سوال کیا ہے کہ کیا انسانی وقار کے تحفظ کے بارے میں آئینی شق کا اطلاق صرف ریاست کے طاقت ور لوگوں پر ہوسکتا ہے۔ اس شق کے تحت اعظم سواتی جیسے عام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کیوں نہیں ہوسکتی۔ ایک ٹوئٹ میں سابق وزیر اعظم نے ایک بار پھر سیاسی معاملات طے کروانے کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو متحرک ہونے کی دعوت دی ہے۔
اعظم سواتی کی گرفتاری ایک افسوسناک اقدام ہے جس پر حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق سے ماورا کوئی اقدام ناقابل قبول انتظامی اقدام تصور ہوگا جس سے معاشرے میں جمہوری روایات اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا رویہ مستحکم نہیں ہوسکے گا۔ خاص طور سے عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ ختم کرنے اور اسلام آباد کی طرف بڑھنے کی بجائے سیاسی طریقوں سے کھیلنے کے فیصلہ کے بعد وفاقی حکومت کو اپوزیشن لیڈروں کے خلاف انتظامی ہتھکنڈے استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ تاہم اس تصویر کے سیاسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ روالپنڈی جلسہ میں فوج اور سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کے علاوہ اعظم سواتی نے متعدد ٹوئٹس میں پاک فوج اور متعدد اعلیٰ افسروں کو ذاتی تضحیک کا نشانہ بنایا اور ان کے بارے میں نامناسب انداز گفتگو اختیار کیا۔اعظم سواتی عمر رسیدہ اور جہاں دیدہ شخص ہیں۔ انہیں اپنی گفتگو اور طرز تکلم پر قابو ہونا چاہئے۔ عمران خان جس انسانی وقار کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے سوال کررہے ہیں اور بالواسطہ طور سے عدالت عظمی کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ وہ اس ایک واقعہ کی بنیاد پر تحریک انصاف کی مدد کو پہنچے، اس دلیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ ذمہ داری دو نوں فریقین پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ریاستی اداروں کو سیاسی بیانات کی گرفت کرنے سے باز رکھنا ضروری ہے تو یہ بھی اہم ہے کہ سیاسی لیڈر بھی تہذیب و شائستگی کے مسلمہ اصولوں کے مطابق انداز گفتگو اختیار کریں۔ کسی سیاسی لیڈر یا شہری کے اس حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ فوج سمیت کسی بھی ادارے یا فرد کے بارے میں سوال اٹھائے اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرے۔ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو روز قبل یوم دفاع کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کھلے دل سے اس حق کو تسلیم کیا تھا لیکن ان کی اس دلیل سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ یہ گفتگو تہذیب و شائستگی کی حدود میں ہونی چاہئے۔
کسی بھی ملک میں مکالمہ اسی وقت شروع ہوسکتا ہے جب سیاست دان اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے اپنی ہی نہیں دوسروں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھیں۔ عمران خان نے بجا طور سے انسانی وقار کے تحفظ کی آئینی شق کا حوالہ دیا ہے لیکن کیا اس شق کا اطلاق صرف حکومتی اقدامات پر ہی ہوگا ۔ سیاسی لیڈروں کو اس حوالے سئے مکمل طور سے بری الذمہ کردیاجائے گا؟ عمران خان اگر اس آئینے میں اپنی شکل دیکھیں تو انہیں خود اندازہ ہوجائے گا کہ معاشرے میں نفرت پھیلانے اور سیاسی مکالمہ کو اظہار کی کم تر سطح تک لانے میں انہوں نے خود بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے انہیں سپریم کورٹ کے ججوں سے پہلے خود اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا وہ شرف آدمیت کا اصول مانتے ہیں یا وہ انسان بھی صرف اسی کو سمجھتے ہیں جو ان کے سیاسی خیالات سے اتفاق کرے اور عمران خان کی قیادت پر ایمان لےآئے؟ سیاسی مخالفین کے بارے میں عمران خان کا طرز تکلم اور لب و لہجہ ناروا اور ناقابل قبول ہے لیکن کبھی اس پہلو پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ مخالفین کے بارے میں سخت ترین الفاظ استعمال کرتے ہوئے خود اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
اگر عمران خان کی یہ دلیل مان بھی لی جائے کہ ان کے سیاسی مخالفین میں اکثر چور لٹیرے ہیں اور سیاسی پوزیشن کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پھر بھی جب تک عمران خان یہ اصول نہیں مانیں گے کہ فرد واحد کو کسی مسلمہ چور یا ڈاکو کی عزت نفس پر حملہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوجاتا۔ اس حوالے سے ملک میں قوانین موجود ہیں۔ ان کے مطابق ہی عدالتی نظام میں کسی شخص کی بے اعتدالی پر اسے سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن عمران خان نے مخالفین کی کرپشن کے بارے میں ایک بیانیہ بنایا اور سیاسی فائیدے کے لئے اسے بیچا۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ کسی کے خلاف کوئی الزام ثابت ہؤا یا نہیں۔ بس انہیں ایک نعرہ چاہئے اور اس نعرے کی بنیاد پر وہ عوام کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اب اعظم سواتی کی گرفتاری پر چیں بچیں ہوتے ہوئے انہوں نے اگر انسانی وقار کا معاملہ اٹھایا ہے تو سب سے پہلے انہیں خود اپنے طرز عمل پر نہ صرف ان لوگوں بلکہ پوری قوم سے معافی مانگنی چاہئے جن کے بارے میں وہ جھوٹے اور قیاس آرائیوں کی بنیاد پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں ۔
وہ اپنے دور حکومت میں تمام سرکاری مشینری پر اختیار رکھنے کے باوجود ان الزامات کو کسی مسلمہ فورم پر ثابت نہیں کرسکے۔ اب وہ اس ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک نئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں کہ نیب پر ان کا اختیار نہیں تھا بلکہ وہ فوجی حکام کے کنٹرول میں تھا۔ اوّل تو قومی احتساب بیورو ایک آئینی ادارہ ہے جسے نہ فوج اور نہ ہی وزیر اعظم کے اختیار میں ہونا چاہئے۔ عمران خان اگر اپنی ناکامی کا اظہار کرتے ہوئے نیب پر کنٹرول نہ ہونے کا شکوہ کررہے ہیں تو انہیں بتانا چاہئے کہ کیا بطور وزیر اعظم یہ ان کی ناکامی نہیں تھی کہ وہ ماورائے آئین اختیارات حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ سیاسی مخالفین کا جینا حرام کرسکیں۔ اس سے بڑی لاقانونیت، اور انسانی وقار کی توہین اور کیا ہوسکتی ہے؟
اعظم سواتی نے اعلیٰ عسکری افسروں کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان کا ذاتی فعل ہے لیکن تحریک انصاف اور عمران خان کو اس ذاتی فعل کے خلاف سرکاری اقدام کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ کیا وہ فوج کے بارے میں اس انداز گفتگو کی توثیق کرتے ہیں؟ یا وہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لئے ملک کے عسکری ادارے پر حملہ آور ہونے کے لئے تیارکرتے رہے ہیں۔ اور اسی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اعظم سواتی نے وہ ٹویئٹس کئے جن کی بنیاد پر وہ دوبارہ گرفتار ہوئے ہیں۔ اب ان کے وکلا یہ الزام عائید کررہے ہیں اس الزام میں قائم ہونے والے مقدمہ میں تو پہلے ہی ضمانت ہوچکی ہے تو انہیں دوبارہ کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز دلیل ہے۔ اگر کسی چور کو چوری کے ایک الزام میں گرفتار کیا جائے اور عدالت فیصلہ ہونے تک اس کی ضمانت قبول کرلے تو کیا اس ضمانت کو متعلقہ شخص کے لئے ’چوری کرنے کا لائسنس‘ سمجھ لیا جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ بچگانہ دلیل کسی قانون کے تحت قبول نہیں کی جائے گی لیکن اس کے سیاسی فائیدے اٹھانے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ جو تحریک انصاف بخوبی اٹھا رہی ہے۔
اعظم سواتی کی سابقہ گرفتاری کے دوران تشدد کے حوالے سے عمران خان اور تحریک انصاف بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں لیکن وہ کسی فورم پر ان الزامات کو ثابت نہیں کرسکے اور نہ ہی ان کے شواہد سامنے لائے گئے ہیں۔ اعظم سواتی کی نجی ویڈیو کامعاملہ بھی اسی طرح تنازعہ کا شکار ہے۔ سینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی نے اس افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی لیکن تحریک انصاف اور اعظم سواتی نے اس کمیٹی سے بھی تعاون کرنے سے گریز کیا۔ اس پس منظر میں کیوں کر ان تمام دعوؤں کو قبول کیا جائے جو تشدد اور ناجائز ویڈیو کے حوالے سے سامنے لائے جاتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ ملک کے نظام قانون پر جیسے بھی اعتراضات کئے جائیں لیکن جب تک متبادل نظام یا ادارے قائم نہیں ہو جاتے ، کسی بھی شکایت کنندہ کو اسی نظام میں انہی اداروں کے ذریعے اپنی شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا۔ اگر تحریک انصاف اور اعظم سواتی سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کی اتھارٹی اور غیر جانبداری کو بھی تسلیم نہیں کرتے تو پھر کیسے ان کی داد رسی ہوسکتی ہے۔
عمران خان کے خیال میں سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے اقدام کرے۔ اس بات کا جائزہ تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہی لے سکتے ہیں کہ کسی سیاسی لیڈر کے ٹوئٹ بیان کی بنیاد پر کیوں کر عدالت عظمی کو متحرک کیا جاسکتا ہے لیکن جس انداز میں عمران خان اس سانحہ کو سیاسی اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کررہے ہیں، اس سے تو یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ناکام احتجاج اور فوج کو اپنی مدد پر آمادہ کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب عمران خان آخری ہتھکنڈے کے طور پر سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی نئی کوششوں کا آغاز کررہے ہیں تاکہ انہیں ایک کے بعد دوسرے طاقت ور ادارے کی اعانت حاصل ہوسکے۔عمران خان خود کو مقبول سیاست دان کہتے ہیں۔ اب انہیں سیاسی بلوغت کی یہ حد عبور کرلینی چاہئے کہ کوئی سیاسی لیڈر اداروں کی اعانت سے نہیں ، عوامی حمایت اور سیاسی لین دین کی بدولت ہی اپنے اہداف حاصل کرسکتا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ