یہ واقعہ 17 فروری 2017 کو پیش آیا۔ ہر سال فروری کے دوسرے ہفتے کے اختتام یا تیسرے ہفتے کے شروع میں سی ایس ایس کے امتحانات منعقد ہو تے ہیں۔ جس میں ملک بھر سے ہزاروں طلبہ و طالبات شامل ہوتے ہیں۔ اس بار بھی سی ایس ایس کے امتحانات سولہ فروری سے شروع ہو گئے ۔ سترہ فروری کو شام سات بجے فیس بک پر سعدیہ کوثر نامی اکاﺅنٹ سے ایک سٹیٹس اپ ڈیٹ ہوا جس میں اکاﺅنٹ ہولڈر نے اپنی 26 اور 31 جنوری کی پوسٹس شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انگلش Essay کے پیپر سے دو ٹاپک اور کرنٹ افئیرز کے پیپر سے دو سوالات ا س نے پیپرز سے دو ہفتے قبل ہی گیس کے طور پر شئیر کیے تھے اور دعویٰ کے طور پر اس نے وہ پوسٹ شئیر کی جس میں دونوں پیپرز سے دو، دو سوالات حرف بحرف وہی تھے جو اس نے اپنے اکاﺅنٹ سے شئیر کیے۔ اسی پوسٹ میں اکاﺅنٹ ہولڈر سعدیہ کوثر کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اگر کوئی بھی سٹوڈنٹ ان سے باقی پیپرز کے مکمل گیس پیپرز حاصل کرنا چاہے تو ان باکس میں رابطہ کرے اور ساتھ ہی ان کی طرف سے ایک پیپر کے گیس کے لیے 30 ہزار روپے سے 80 ہزار روپے تک کا مطالبہ بھی کیا گیا۔دلچسپی رکھنے والے امیدوارں کو ایک پن کوڈ دیا جا رہا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنے شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ رقم جمع بھی کرائی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ سٹیٹس وائرل ہو گیا اور سی ایس ایس کے حوالے سے مختلف گروپس میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ سی ایس ایس جیسے امتحان کے پیپرز بھی لیک ہو گئے ہیں اس کے ساتھ ہی ایف پی ایس سی کی کریڈیبلٹی بھی مشکوک ہو گئی۔ مختلف لوگوں کی طرف سے مختلف آراء آنا شروع ہو گئیں۔ سعدیہ کوثر نامی اکاﺅنٹ کے جاب سیکشن میں موجودہ ملازمت میں فارن سروسز کا حوالہ موجود تھا اور ان کے سٹیٹس میں مختلف فارن ٹورز، پرائم منسٹر سیکرٹریٹ، پارلیمنٹ لاجز کے وزٹس موجود تھے۔ اس لیے کچھ لوگوں نے کہا کہ متعلقہ اکاﺅنٹ ہولڈر کے کوئی خاص دوست ڈیپارٹمنٹ کے اندر ہوں گے اور وہ بھی اس واردات میں شامل ہوں گے۔ اور کچھ لوگوں نے اس پوسٹ کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ پوسٹ ایڈیٹ ہوئی ہے اصل پوسٹ کچھ اور تھی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اصل پوسٹ کے سکرین شارٹس بھی شئیر کیے۔ اگلے ہی دن اخبارات میں اس خبر کو نمایاں جگہ ملی ۔ اور ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا میں بھی سی ایس ایس کے امتحانات کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ بالآخر چئیرمین ایف پی ایس سی نے اس بات کا بہت سیریس نوٹس لیا اور اس حوالے سے ڈی جی ایف آئی سے بھی رابطہ کیا تاکہ ایف۔ آئی کا سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ ونگ اس معاملے کے حوالے سے اپنی تحقیق کرے۔ ایف پی ایس سی نے اپنے طور پر بھی ڈیپارٹمنٹل انکوائری کی تاکہ حقائق کی جانچ پڑتال کے بعد رپورٹ شئیر کی جا سکے۔ اسی دن اکاﺅنٹ ہولڈر نے اپنا اکاﺅنٹ ڈی ایکٹیویٹ کر دیا ۔ لیکن یہ خبر کئی دن تک سوشل میڈیا میں سی ایس ایس کے حوالے سے مختلف گروپس میں شئیر ہو تی رہی۔
آخر کار 12 اپریل کو ایف پی ایس سی نے اس واقعے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح طور پر بتائی گئی کہ پیپرز کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے ایف پی ایس سی میں فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں اور کمیشن کے نظام پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس لیے پیپر سے متعلقہ کوئی بھی انفارمیشن آﺅٹ نہیں ہو سکتی جب کہ متعلقہ اکاﺅنٹ ہولڈر نے فیس بک پر امتحان کے انعقاد کے بعد گیس پیپرز ایڈیٹ کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس کی جانب سے شروع میں جاری کئے گئے گیس پیپرز اور سی ایس ایس کے پیپرز میں مماثلت موجود ہے۔ حالانکہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔ مزید برآں ایف آئی کے سائبر کرائم سیل نے سعدیہ کوثر کو کیسے ڈھونڈا یہ بات کافی دلچسپ ہے۔ جیسے ہی خبر میڈیا پر آئی اور ایف پی ایس سی نے انکوائری کا اعلان کیا اسی دن اکاﺅنٹ ہولڈر نے اپنا اکاﺅنٹ ڈی ایکٹیویٹ کر دیا۔ اس لیے ایف آئی نے متعلقہ فیس بک اکاﺅنٹ ہولڈر کے بارے میں فیس بک کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور سعدیہ کوثر نامی اکاﺅنٹ کا آئی پی ایڈریس معلوم کیا۔اس کے علاوہ نادرا، خفیہ ایجنسیوں اور دوسرے ڈیپارٹمنٹس سے بھی رابطہ کیا گیا۔ وہ آئی پی ایڈریس فیصل آباد سے آپریٹ ہو رہا تھا۔ ایف آئی اے کی ٹیم مسلسل محنت اور فیلڈ ورک کرنے کے بعد متعلقہ ایڈریس تک پہنچ ہی گئی اور بالآخر سعدیہ کوثر نامی اکاﺅنٹ کے اصلی کردار محمد عارف کو گرفتار کر لیا۔ محمد عارف نے ابتدائی انکوائری میں جو اپنا بیان ریکارڈ کروایا وہ بھی اس رپورٹ کا حصہ ہے جس میں اس نے یہ بیان دیا کہ وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سترہ سے زائد امتحانات دے چکا ہے لیکن کسی بھی امتحان میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ مسلسل ناکامی نے اس کو انتقامی کارروائی پر اکسایا ۔اوراس نے ایف پی ایس سی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے اپنی ہی ایک پرانی پوسٹ کو ایڈیٹ کیا اور اس میں پیپرز کے لیک ہونے کے علاوہ مزید پیپرز کے گیس دینے کے حوالے سے رقم کا مطالبہ بھی کیا۔ ایف آئی اے نے محمد عارف کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی اور محمد عارف اب اپنے کیے کی سزا عدالت سے بھگتے گا۔
ہمارے ملک میں اگرچہ بہت سے ادارے موجود ہیں لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے بارے میں یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ سی ایس ایس کے امتحانات کونہ صرف شفاف طریقے سے منعقد کیا جاتا ہے بلکہ اس میں صرف وہی لوگ ابھر کر سامنے آتے ہیں جنہوں نے دن رات محنت کی ہوتی ہے۔
فیس بک کمینٹ