حلال وحرام ۔۔۔ایک دم مختلف، متضاد اور ایک دوسرے کی بالکل ٹکر کے لفظ ہیں نہ تو ان کے بولنے میں ہی کچھ ایک سا ہے نہ لکھنے میں اور نہ ہی ایسا کہ ایک نقطے نے مجھے محرم سے مجرم کردیا والی صورت ہو جائے ۔ جی جناب جس طرح یہ لکھنے اور بولنے میں مختلف ہیں اسی طرح عمل میں، نبھانے اور اثرانداز ہونے میں بھی یکسر متضاد ہیں ۔حلال وحرام کی گتھی ایسی اُلجھی ہے کہ سُلجھائے نہیں سُلجھتی ۔آج حلال وحرام صرف کمائی تک ہی محدود نہیں ہماری گفتگو، ہمارے پہناوے ہماری رشتہ داریوں ،ہماری دوستیوں میں بھی اس کا بڑا عمل دخل ہے۔ہم یہ توجانتے ہیں کہ رشوت لینا حرام ہے، کسی کا مال کھانا حرام ہے، کسی کا جائیداد میں سے حصہ ہڑپ لینا حرام ہے ۔ ہم اپنے بچوں کو تربیت بھی دیتے ہیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر ساتھ ہی جائیداد میں سے بہنوں کا حصہ آج بھی کھا جاتے ہیں ۔دھڑلے سے رشوت لیتے ہیں اور اس کی بھرپور نمائش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہنے سے بھی نہیں ڈرتے کہ رشوت کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی کلرک کرپٹ ہو کر بھی خود کو ایمان دار ثابت کر رہا ہو سامنے والا اس سے اتنا مرعوب ہوتا ہے کہ اس کی زبان سے اتنی سی بات نہیں نکلتی کہ بھائی جس برانڈ میں تم سر سے پیر تک لپٹے ہو اتنی سی تنخواہ میں تو اس شوروم کے دروازے تک جانے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ۔کبھی حرام کمانے والے نظریں چراتے تھے آج حلال کمانے والے اپنی عزت بچاتے پھرتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ منافق کی بخشش نہیں مگرمنافقت میں تو سارا معاشرہ جیسے گڑ کی ڈلی بن گیاہے۔ دل میں گالی نکال رہے ہوتے ہیں اور منہ پر ’بس جی آپ جیسے اچھے دوستوں کی برکت ہے‘ کا ورد ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگ کہاں ملتے ہیں کہنے والا شخص آپ کے جاتے ہی عجیب سا منہ بنا کے کہتا ہے جان چھوڑ بھائی۔ وہ بہن بھائی جو کبھی ایک دوسرے کا سب سے بڑا سہارا ہوا کرتے تھے آج انہی کی دی ہوئی چوٹوں سے جسم سہلاتے زندگی گزر جاتی ہے ۔ رشتوں کی بے ایمانی کو کوئی آج حرام مانتا ہی نہیں ۔اللہ کہتاہے صلہ رحمی کرو اور ہم کہتے ہیں کہ رشتہ دار تو نظر ہی نہ آئیں پہلے شادیوں میں رشتہ دار مہینہ پہلے رونق لگانے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ اب تو سگے بہن بھائی بھی شادی ہال تک محدود ہو کے رہ گئے ہیں نہ تو کسی کو ماموں، چچا سے غرض ہے اور نہ ہی ان کاتعارف کرانا ضروری سمجھا جاتاہے۔ بہنوں کو نوازنا ہماری تہذیب تھی، بہنوں کے گھرخالی ہاتھ نہ جانا ہمارا منشورتھا۔ لیکن آج بھائی بہنوں سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں اورہم میں سے کوئی اس عمل کو حرام نہیں کہتا۔ اور سب سے بڑی چوٹ ہماری تہذیب اور مذہب کو پہناوے نے دی ہے۔جدت اور برانڈ کی ایسی دوڑ چلی ہے کہ کمائی کی چکی میں پسا مرد حلال وحرام سوچنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوگیا۔ 40سے 50ہزار میں تو ایک موسم کے کپڑے ایک فرد کے بنتے ہیں اور اگرکسی عورت نے اپنے شوہر کو تنگ کئے بغیر عام کپڑاپہن لیا تو بھری محفل میں لوگ اس کی تضحیک کرتے ہیں ۔ کیا یہ عمل حرام نہیںاس پر کوئی غور ہی نہیں کرتا۔ کبھی معاشرے میں بزرگ خاندان کو جوڑ کے رکھنا اپنا ایمان سمجھتے تھے ۔پہلے گھر کا ایک بچہ اگر کسی تقریب میں نہیں ہوتا تھا توخاندان کے بزرگ اس کابائیکاٹ کرتے اور سب کوشامل کرنے کاجتن کیا جاتا۔ آج خاندان کے سربراہ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ کیاہوا بڑا بھائی بلانے نہیں گیا مگر کارڈ تو بھیجا تھا نا۔ معذرت کے ساتھ بزرگوں کی اس منافقت نے خاندانی سسٹم کو بڑا نقصان پہنچایا ہے ۔اپنے آرام کے لئے جو ہوتا ہے ہونے دو کا راگ الاپنا بھی حرام ہے ۔اپنے صاحب اقتدار سے کیا کہنا جب عام طبقہ بھی حرام ۔۔حلال کے چکر میں نہیں پڑنانہیں چاہتا۔ ہم نے بڑی خاموشی سے حرام کو حلال میں بدل کر اپنا لیا ہے۔ رزق، گفتگو، رویوں، رشتہ داریوں میں کیسے دبے قدموں حرام نے جگہ لی کہ احساس ہی ختم ہوگیا۔ ہر شخص دوسرے پہ انگلی اٹھاکے خود چور دروازے سے نکلنے کی کوشش کرتاہے ۔ہم معاشرے کے اس تضاد کا شورتو مچاتے ہیں اوروں کی طرف انگشت نمائی تو کرتے ہیں مگر اپنی طرف اٹھتی 4 انگلیوں کو نہیں دیکھتے ۔ اگر ہم ایسا کر سکیں تو معلوم ہو گا کہ حرام صرف حکمران تو نہیں کھاتے ۔۔
فیس بک کمینٹ