میڈیکل کے ان پانچوں سٹوڈنٹس نے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ زندگی ختم ہونے کے فورا بعد کیا ہوتا ہے ۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی خو د ہی مصنوعی طور پر ہارٹ اٹیک کے ذریعے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور سانسیں ختم ہونے کے ٹھیک ایک منٹ کے بعد پھر سے زندہ ہونے کے لیے ادویات کا تعین کیا ۔ سب سے پہلے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ اس آئیڈیے کی تخلیق کار کورنٹی نے کیا۔ اگرچہ اس کے باقی دوستوں نے تجربے سے کچھ لمحے پہلے اسے منع کیا ، مگر وہ اپنے ارادے پر ڈٹی رہی اور کورنٹی کو مصنوعی طور پر ہارٹ اٹیک دے کراس کی وفات کے فورا بعد اس کے دماغ پر آنے والی امیجز کو سکینر کے ذریعے کمپیوٹر سکرین پر منتقل کیا گیا ۔ اور ایک منٹ کے بعد اسے زندگی بچانے والی ادویات کے ذریعے دوبارہ سانس بحال کرنے کی کوشش کی گئی، اس دوران کورنٹی کے دماغ میں کیا چلتا رہا یہ اس نے اپنی سانس بحال ہونے کے فورا بعد شئیر کیا ۔ اس نے کہاوہ اچانک اوپر کی طرف اڑنا شروع ہو گئی، اس نے نیچے اپنے ہسپتال اور عملے کو دیکھا ، اور اڑتے اڑتے ایسے مرکز میں داخل ہوگئی جہاں پرپیور انرجی تھی۔اسی دوران اس نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے بہت سے واقعات اور حادثات کو دیکھا، یکے بعد دیگراس کے تین اور دوست بھی اس تجربے سے گزرے ۔ ان کے ساتھ کیا ہوا اور ان کو اس تجربے کے بعد کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کے لیے آپ کو Flatliners مووی دیکھنا پڑے گی۔ اگرچہ یہ مووی فکشن پر مبنی ہے ، مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ زندگی ختم ہونے کے فورا بعد کیا ہوتا ہے۔ اس کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔ کیونکہ کوئی بھی انسان زندگی ختم ہونے کے بعد پلٹ کر واپس یہ بتانے نہیں آیا کہ اس کے ساتھ سانس ختم ہونے کے بعد کیا واقعات پیش آئے یا اس نے کیا محسوس کیا یا پھر اس کے اندر موجود روح کو کہا ں لے جایا گیا۔دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانی جسم میں روح موجود ہوتی ہے، او ر کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے لوگ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کوئی انرجی انسانی جسم میں موجود ہوتی ہے، اور جیسے ہی روح یا وہ انرجی جسم سے نکلتی ہے تو وہ جسم مردہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ روح آج تک دکھائی نہیں دی لیکن روح کا سراغ پانے کے لئے نیو یارک کے ڈاکٹر ایل جان اور ڈاکٹر ابراہم نے سینکڑوں تجربات کیے۔ اور بالآخر اعلان کیا کہ انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے۔ روح کا سراغ تو وہ بھی نہیں لگا سکے بس انسان کے مرنے کے بعد اس کے پھیپھڑوں سے آکسیجن کی جو مقدار خارج ہوتی اس سے انہوں نے اندازہ لگایاکہ انسانی روح کا وزن صرف 21 گرام ہوتا ہے۔ روح اگر ہے تو انسان زندہ ہے ، لیکن جیسے ہی روح جسم سے نکلتی ہے تو جسم کی ماہیت تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے انسان کچھ ہی لمحوں میں حال سے ماضی بن جاتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ایک سیکنڈ میں دو افراد، ایک منٹ میں 105، ایک گھنٹے میں 6316، ایک دن میں 151,600 اور ایک سال میں 5کروڑ 53 لاکھ افراد کے قریب لوگوں کا انتقال ہو تا ہے ۔یعنی کہ آنے والا کل کتنے لوگوں کا آفٹر لائف ڈے ہو گا، وہ آپ ، ہم یا ہمارے ارد گرد لوگوں میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہم سب زندگی کی بھاگ دوڑ میں آفس ، کاروبار، نوکری وغیرہ کو بہت زیادہ ٹائم اور فیملی، رشتہ داروں اور دوستوں کو بہت مختصر ٹائم دیتے ہیں، بزنس اور جائیدادیں بڑھانے کے چکر میں ہماری پوری عمر گزر جاتی ہے۔ اگر قدرت نے ہمیں کوئی طاقت دی ہے یا اختیارات دیے ہیں تو ان کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، صرف یہی سوچ کر کہ زندگی تو بہت طویل ہے، دوسری طرف کچھ لوگ ساری زندگی ایک خول میں بند رہیں گے ، وہ زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے اور کسی سست الوجود کی طرح اپنی زندگی کا ہر دن ایسے گزاریں گے جیسے وہ اپنے اس دن پر احسان کر رہے ہیں ، ان کے ذہن میں زندگی کو بہتر سے بہترین گزارنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا، وہ کبھی زندگی میں کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر تے ، نہ ہی زندگی کی قدر کرتے ہیں اور اس دوران ان کی زندگی کا بھی آخری دن آ ہی جاتا ہے ۔شاید آخری وقت میں ان کو ملال بھی ہوتا ہو لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت۔
آج ذرا بیٹھ کو سوچیے کہ اگر آنے والا کل آپ کا آفٹر لائف ڈے ہے اور آپ کے پاس دنیا کی زندگی کا صرف ایک دن بچا ہے تو آپ دن کے چوبیس گھنٹوں کو کیسے گزارتے ہیں ۔ آپ کے تمام پلانز، تمام بزنس یا آفیشل میٹنگز، تمام فارن ٹورز، بینک بیلنس، جائیدادوں، ان سب کی حیثیت اچانک ختم ہو جائے گی اور آپ کو صرف اپنی فکر پڑ جائے گی ، کیونکہ آپ اگر دنیا کے امیر ترین آدمی بھی ہیں تو موت سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا، اس سے آج تک کوئی نہیں بچ سکا ، سوآپ جتنے بھی طاقتور ہیں یا جتنے بھی دولت مند ہیں یا جتنی بھی اعلی حیثیت کے مالک ہیں، آپ کی زندگی کا آخری دن آنا ہی آنا ہے ۔ آپ کو بزنس کرنا ہے دولتمند بننا ہے یا طاقتور بننا ہے تو بنیں، لیکن کسی کا حق نہ چھینیں، کسی کو اپنی طاقت کا ناجائز نشانہ نہ بنائیں،تکبر اور گھمنڈ اور اتراتے ہوئے زندگی نہ گزاریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی فیملی اور دوست احباب کے ساتھ بھی اچھا اور بھر پور وقت گزاریں کیونکہ آپ کی فیملی اور آپ کے اچھے دوست ہی آپ کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں، یہ آپ کے اچھے اور برے وقت میں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ۔
زندگی کی قدر کیجیے، کیونکہ آفٹر لائف کا مرحلہ کسی بھی وقت شروع ہو سکتا ہے۔ آپ سے پہلے بھی اربوں لوگ دنیا سے رخصت ہو گئے،آپ کے ہوتے ہوئے بھی بہت سے لوگ رخصت ہو رہے ہوں گے اور آپ کے بعد بھی دنیا میں لو گ آئیں گے اور جائیں گے ۔ لیکن آپ کوصرف اپنے آپ کو بہتر بنانا ہے کیونکہ آپ کو زندگی صرف ایک بار ملی ہے ہر دن کو قدرت کا عظیم تحفہ سمجھ کر گزاریے تب ہی آپ کو اپنی زندگی جیسی عظیم نعمت کی قدر ہو گی اورآپ ہر دن کوشاندار او ر بھر پور طریقے سے گزاریں گے۔
فیس بک کمینٹ