گزشتہ سے پیوستہ
نسیم لیہ نے ان کے بارے میں کہا کہ "بیاض کی شاعری ایک حرارت ۔ایک جذبہ اور ایک سلگتی ہوئی چنگاری سے عبارت ہے۔”شہرت کے اعتبار سے بیاض سونی پتی کےبے شمار اشعار ایسے ہیں جو اپنے خالق کو پیچھے چھوڑ گئےلوگ ان کے اشعار پڑھتے ۔لکھتے ۔اور سنتے اور پسند کرتے مگر شاعر کا نام نہ جانتے تھے ۔قاسم راز ؔ نے لکھا ” بیاض چالیس سال تک دوشیز ہِ ادب کے گیسو سنوارتے رہے آپ کی شاعری میں زندگی کے تلخ حقائق نمائیاں نظرآتے ہیں ۔ان کی شاعری میں بغاوت نظر آتی ہے ۔”آپ اپنی شاعری میں عام آدمی کے حق کی بات کرتے ہیں اور سماج سیاسی اور سماجی اقربا کے پس ماندہ طبقہ کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔
شاعری حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے اور معاشرےاور ماحول کی عکاسی کرتی ہے صرف فن شاعری موجد شاعری نہیں بلکہ وہ لطیف احساسات و جذبات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کر دیں دراصل شاعری ہے یعنی وہ منظم
جذبات واحساسات جو فی البد یہہ نازل ہوں ان کا اظہار فن شاعری کا خاصا ہے ۔شاعری میں بندش والفاظ ہی کافی نہیں اثر کےلیے خون جگر بھی درکار ہے ۔بیاض سونی پتی نے اپنے احساسات و جذبات کو جس طرح اپنے اشعار
میں پرویا ہے وہ ان کا خاص کمال فن ہے اور وہ اپنے تخیل اور لفظوں کے مناسب چناو کے ساتھ ساتھ مطالعہ کائنات اور آفاقی سچائیوں کو جس باریکی سے بیان کرتے ہیں وہ خداداد صلا حیت ان کو ہی حاصل رہی ۔ان کی شاعری میں آمد اور آورددونوں نظر آتی ہیں ۔غور وفکر سے مرتب اشعار کے ساتھ بے ساختہ شاعری ان کے اشعار کو اور بھی خوبصورت کردیتی ہے۔شعر کا اصل حسن تخیل کی بلندی اور پختگی ہے شاعری عکس ہے معاشرہ و ماحول کا ۔
شاعری جوہر ہے تخیل اور الفاظ کے چناؤ کا ، شاعری نچوڑ ہے احساسات کا ۔ شاعری رقص ہے جذبات کا ۔ شاعری بیان ہے محبت کا چاہے اس کے پیچھے عقیدت کار فرما ہو یا دنیاوی لگاؤ سب ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ بیاض
سونی پتی نے شاعری کی تمام اصناف پر بہت عمدہ طبع آ زمائی کی ۔ حمد ہو یا نعت ۔قصیدہ ہو یا مثنوی۔نظم ہو یا غزل۔رباعی ہو یا قطعہ ۔ریختہ ہو یا ریختی۔واسوخت ہو یا آزاد نظم ۔ ان کی شاعری بے مثال تھی اب تک ان کے تین
شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں "احساس کے انداز ” انوار عزیزیہ "اور آئینوں کے شہر میں "شامل ہیں ۔ان ہی کتب سے ایک ہلکا پھلکا سا جائزہ ان کی شاعری کے اصناف کا لیتے ہیں۔
شاعری میں احساس کو مختلف سطحوں پر برتا گیا تخلیقی زبان کی عمدگی یہ ہوتی ہے کہ اس میں لفظ اپنی لغوی معنی سے بہت آگے نکل جاتا ہے اور معنی اور مفہوم کی ایک علیحدہ دنیا آباد کرتا ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ۔شاعر
اپنی حسی قوت کی بنیاد پر زندگی کے کن نامعلوم گوشوں اور کیفیتوں کو زبان دیتا ہے اور اس احساس کی شدت کسی بڑے فن پارے کی تخلیق میں کیسے اہم ہوجاتی ہے اس کا اندازہ بیاض سونی پتی کی شاعری سے بخوبی لگایا جاسکتا
ہے۔کہتے ہیں کائنات کی سب سے مہنگی چیز احساس ہے جو دنیا کے ہر انسان کو عطا نہیں ہوتا اور کسی فن پارے کی گہرائی کا احساس الفاظ سے نہیں برتاو اور رویے سے ہوتا ہے۔اس لیے شاعری کو احساسات و جذبات کا ترجمان
بھی تصور کیا جاتا ہے۔بیاض سونی پتی نے انسانی دکھوں اور جذبات واحساسات کو اتنی نزاکت سے اپنی شاعری کا حصہ بنایا کہ ہر آدمی کو ان کی شاعری میں اپنا دکھ نظر آتا ہے ۔سادہ الفاظ اور عام فہم اشعار عام آدمی کے دل پر اثر کرتے ہیں اور یہی بیاض سونی پتی کی شاعری کا خاصا ہے ۔آپ کی شاعری نصف صدی پر محیط ہے اور آپ کا شمار ان شاعروں میں ہے جن کے یہاں فکرونظر جذبہ ٔتخیل اور لفظ ومعنی کے درمیان ایک ربط اور تسلسل پایا جاتا ہے وہ زندگی کی عکاسی حالات وواقعات کی ترجمانی کے لیے لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے احساسات ۔جذبات۔مشاہدات اور تخیلات کا فنکارانہ اظہار کرتے ہیں۔
احساس کے افق پہ جو ابھری کوئی کرن
میں نے قلم سے شعر کے سانچے میں ڈھال دی
یہ طے ہوا ہے روشنیوں کے خداؤں میں
زنجیر تیرگی رہے کرنوں کے پاؤں میں
پتھر کی طرح زیست کا احساس بھی نہیں
اپنی گزررہی ہے یونہی دھوپ چھاؤں میں
اس دور میں حیات برہنہ نہیں رہی
ملبوس ہے غموں کے سنہری لباس میں
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی
دوستو پھر میرے احساس پہ برچھی مارو
دل پہ جو زخم لگا ہے وہ گہرا کم ہے
احساس کی تہوں میں رواں بجلیاں سی ہیں
شعلے سے اُڑ رہے ہیں سِرجادہ خیال
ر َگ احساس میں پیوستہ ہوا کیسے بیا ؔض
اجنبی بھولنے والے کی لگن کا خنجر
احساس کی تہوں میں بھڑکتی ہے آگ سی
اپنا وجود ایک دہکتا الاؤ ہے
کیوں قہقہوں کے ساتھ نکلتے ہیں اشک بھی
ٔشاید خوشی کو درد سے گہرا لگاؤ
جس کے احساس سے پتھر کا جگر پانی ہو
ہاں وہی بار الم ہنس کے اُٹھایا میں نے
گہری سوچوں سے لپکتے ہو ُے دیکھا ہے بیاضؔ
شعر کے روپ میں احساس کا شعلہ میں نے
موج احساس میں جو کرب مچلتا ہے بیا ؔض
اسکو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر رکھ دو
گونجتی تھی فکر کے گنبد میں ہر لمحے کی چاپ
اب ہے جو احساس پر۔یہ گہرا سناٹا نہ تھا
پڑ رہی ہے برف ننگی شاخساروں پر بیاض ؔ
آگ سی پھر بھی رواں احساس کی لہروں میں ہے۔
چاہے جتنا بھی بڑھا غم کے اندھیروں کا غرور
دیپ احساس کا مدھم کبھی ایسا تو نہ تھا
بازار میں جن کی کوئی قیمت نہ قدر ہے
لفظوں کے صدف میں ہیں وہ احساس کے موتی
غم کی بڑی کارر وائی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو بہت ہی نرم کر دیتا ہے اور اگر غم نہ ہو تو انسان پتھر ہی رہتا ہے ۔اس لیے بیاض ؔ احساس غم کی خواہش کا اظہار اپنے کلام میں بارہا کرتے ہیں ۔
جان جب کرنوں کی رگ رگ سے نکالی جاے گی
پھر شب تاریک کی بنیاد ڈالی جائے گی
جس طرح لپٹا ہوا جھاڑی سے کپڑا کھینچ لیں
اس طرح اس جسم سے یہ جاں نکالی جائے گی
پتھروں کو پھول کی رعنائی موتی کی چمک
ہم نے اپنے خوں سے بخشی ان کے کاشانے بنے
ہم نے سو سو رنگ سے پتھر تراشے ہیں بیاض ؔ
تب خیال وفکر کے رنگیں صنم خانے بنے
( جاری )
نسیم لیہ نے ان کے بارے میں کہا کہ "بیاض کی شاعری ایک حرارت ۔ایک جذبہ اور ایک سلگتی ہوئی چنگاری سے عبارت ہے۔”شہرت کے اعتبار سے بیاض سونی پتی کےبے شمار اشعار ایسے ہیں جو اپنے خالق کو پیچھے چھوڑ گئےلوگ ان کے اشعار پڑھتے ۔لکھتے ۔اور سنتے اور پسند کرتے مگر شاعر کا نام نہ جانتے تھے ۔قاسم راز ؔ نے لکھا ” بیاض چالیس سال تک دوشیز ہِ ادب کے گیسو سنوارتے رہے آپ کی شاعری میں زندگی کے تلخ حقائق نمائیاں نظرآتے ہیں ۔ان کی شاعری میں بغاوت نظر آتی ہے ۔”آپ اپنی شاعری میں عام آدمی کے حق کی بات کرتے ہیں اور سماج سیاسی اور سماجی اقربا کے پس ماندہ طبقہ کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔
شاعری حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے اور معاشرےاور ماحول کی عکاسی کرتی ہے صرف فن شاعری موجد شاعری نہیں بلکہ وہ لطیف احساسات و جذبات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کر دیں دراصل شاعری ہے یعنی وہ منظم
جذبات واحساسات جو فی البد یہہ نازل ہوں ان کا اظہار فن شاعری کا خاصا ہے ۔شاعری میں بندش والفاظ ہی کافی نہیں اثر کےلیے خون جگر بھی درکار ہے ۔بیاض سونی پتی نے اپنے احساسات و جذبات کو جس طرح اپنے اشعار
میں پرویا ہے وہ ان کا خاص کمال فن ہے اور وہ اپنے تخیل اور لفظوں کے مناسب چناو کے ساتھ ساتھ مطالعہ کائنات اور آفاقی سچائیوں کو جس باریکی سے بیان کرتے ہیں وہ خداداد صلا حیت ان کو ہی حاصل رہی ۔ان کی شاعری میں آمد اور آورددونوں نظر آتی ہیں ۔غور وفکر سے مرتب اشعار کے ساتھ بے ساختہ شاعری ان کے اشعار کو اور بھی خوبصورت کردیتی ہے۔شعر کا اصل حسن تخیل کی بلندی اور پختگی ہے شاعری عکس ہے معاشرہ و ماحول کا ۔
شاعری جوہر ہے تخیل اور الفاظ کے چناؤ کا ، شاعری نچوڑ ہے احساسات کا ۔ شاعری رقص ہے جذبات کا ۔ شاعری بیان ہے محبت کا چاہے اس کے پیچھے عقیدت کار فرما ہو یا دنیاوی لگاؤ سب ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ بیاض
سونی پتی نے شاعری کی تمام اصناف پر بہت عمدہ طبع آ زمائی کی ۔ حمد ہو یا نعت ۔قصیدہ ہو یا مثنوی۔نظم ہو یا غزل۔رباعی ہو یا قطعہ ۔ریختہ ہو یا ریختی۔واسوخت ہو یا آزاد نظم ۔ ان کی شاعری بے مثال تھی اب تک ان کے تین
شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں "احساس کے انداز ” انوار عزیزیہ "اور آئینوں کے شہر میں "شامل ہیں ۔ان ہی کتب سے ایک ہلکا پھلکا سا جائزہ ان کی شاعری کے اصناف کا لیتے ہیں۔
شاعری میں احساس کو مختلف سطحوں پر برتا گیا تخلیقی زبان کی عمدگی یہ ہوتی ہے کہ اس میں لفظ اپنی لغوی معنی سے بہت آگے نکل جاتا ہے اور معنی اور مفہوم کی ایک علیحدہ دنیا آباد کرتا ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ۔شاعر
اپنی حسی قوت کی بنیاد پر زندگی کے کن نامعلوم گوشوں اور کیفیتوں کو زبان دیتا ہے اور اس احساس کی شدت کسی بڑے فن پارے کی تخلیق میں کیسے اہم ہوجاتی ہے اس کا اندازہ بیاض سونی پتی کی شاعری سے بخوبی لگایا جاسکتا
ہے۔کہتے ہیں کائنات کی سب سے مہنگی چیز احساس ہے جو دنیا کے ہر انسان کو عطا نہیں ہوتا اور کسی فن پارے کی گہرائی کا احساس الفاظ سے نہیں برتاو اور رویے سے ہوتا ہے۔اس لیے شاعری کو احساسات و جذبات کا ترجمان
بھی تصور کیا جاتا ہے۔بیاض سونی پتی نے انسانی دکھوں اور جذبات واحساسات کو اتنی نزاکت سے اپنی شاعری کا حصہ بنایا کہ ہر آدمی کو ان کی شاعری میں اپنا دکھ نظر آتا ہے ۔سادہ الفاظ اور عام فہم اشعار عام آدمی کے دل پر اثر کرتے ہیں اور یہی بیاض سونی پتی کی شاعری کا خاصا ہے ۔آپ کی شاعری نصف صدی پر محیط ہے اور آپ کا شمار ان شاعروں میں ہے جن کے یہاں فکرونظر جذبہ ٔتخیل اور لفظ ومعنی کے درمیان ایک ربط اور تسلسل پایا جاتا ہے وہ زندگی کی عکاسی حالات وواقعات کی ترجمانی کے لیے لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے احساسات ۔جذبات۔مشاہدات اور تخیلات کا فنکارانہ اظہار کرتے ہیں۔
احساس کے افق پہ جو ابھری کوئی کرن
میں نے قلم سے شعر کے سانچے میں ڈھال دی
یہ طے ہوا ہے روشنیوں کے خداؤں میں
زنجیر تیرگی رہے کرنوں کے پاؤں میں
پتھر کی طرح زیست کا احساس بھی نہیں
اپنی گزررہی ہے یونہی دھوپ چھاؤں میں
اس دور میں حیات برہنہ نہیں رہی
ملبوس ہے غموں کے سنہری لباس میں
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی
دوستو پھر میرے احساس پہ برچھی مارو
دل پہ جو زخم لگا ہے وہ گہرا کم ہے
احساس کی تہوں میں رواں بجلیاں سی ہیں
شعلے سے اُڑ رہے ہیں سِرجادہ خیال
ر َگ احساس میں پیوستہ ہوا کیسے بیا ؔض
اجنبی بھولنے والے کی لگن کا خنجر
احساس کی تہوں میں بھڑکتی ہے آگ سی
اپنا وجود ایک دہکتا الاؤ ہے
کیوں قہقہوں کے ساتھ نکلتے ہیں اشک بھی
ٔشاید خوشی کو درد سے گہرا لگاؤ
جس کے احساس سے پتھر کا جگر پانی ہو
ہاں وہی بار الم ہنس کے اُٹھایا میں نے
گہری سوچوں سے لپکتے ہو ُے دیکھا ہے بیاضؔ
شعر کے روپ میں احساس کا شعلہ میں نے
موج احساس میں جو کرب مچلتا ہے بیا ؔض
اسکو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر رکھ دو
گونجتی تھی فکر کے گنبد میں ہر لمحے کی چاپ
اب ہے جو احساس پر۔یہ گہرا سناٹا نہ تھا
پڑ رہی ہے برف ننگی شاخساروں پر بیاض ؔ
آگ سی پھر بھی رواں احساس کی لہروں میں ہے۔
چاہے جتنا بھی بڑھا غم کے اندھیروں کا غرور
دیپ احساس کا مدھم کبھی ایسا تو نہ تھا
بازار میں جن کی کوئی قیمت نہ قدر ہے
لفظوں کے صدف میں ہیں وہ احساس کے موتی
غم کی بڑی کارر وائی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو بہت ہی نرم کر دیتا ہے اور اگر غم نہ ہو تو انسان پتھر ہی رہتا ہے ۔اس لیے بیاض ؔ احساس غم کی خواہش کا اظہار اپنے کلام میں بارہا کرتے ہیں ۔
جان جب کرنوں کی رگ رگ سے نکالی جاے گی
پھر شب تاریک کی بنیاد ڈالی جائے گی
جس طرح لپٹا ہوا جھاڑی سے کپڑا کھینچ لیں
اس طرح اس جسم سے یہ جاں نکالی جائے گی
پتھروں کو پھول کی رعنائی موتی کی چمک
ہم نے اپنے خوں سے بخشی ان کے کاشانے بنے
ہم نے سو سو رنگ سے پتھر تراشے ہیں بیاض ؔ
تب خیال وفکر کے رنگیں صنم خانے بنے
( جاری )
فیس بک کمینٹ