پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں ہر قیمت پر استحکام کی ضرورت پر زور دیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہتر ہوگا کہ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرلیے جائیں لیکن استحکام کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہو تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔پارٹی کے 57ویں یوم تاسیس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تحریک انصاف پر موجودہ سیاسی تعطل کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ سیاسی پارٹیوں کی بجائے صرف اسٹبلشمنٹ سے بات کرنے کے حامی ہیں۔ اس طرح سیاسی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بلاول بھٹو زرداری لیڈروں کی نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک روشن خیال پارٹی کے سربراہ ہیں اور عام طور سے انسانی حقوق اور دیگر سماجی و معاشی مسائل کے حوالے سے اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس وقت بھی وہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے یا خیبر پختون خوا میں گورنر راج نافذ کرنے کی براہ راست حمایت کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس قسم کے ہتھکنڈوں کے حامی نہیں ہیں لیکن ابھی اس بارے میں حکومت نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ البتہ دیکھا جاسکتا ہے کہ بلوچستان ملک کی واحد صوبائی اسمبلی ہے جس نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی قرار داد منظور کی ہے۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ پارٹی قیادت کی تائید کے بغیر سرفراز بگٹی کی قیادت میں قائم بلوچستان حکومت، اسمبلی سے ایسی متنازعہ قرارداد منظور کراسکتی تھی۔
پیپلز پارٹی کے چئیرمین کا یہ مؤقف ناقابل فہم ہے کہ سیاسی بے چینی کو لاٹھی کے استعمال یا طاقت کے زور پر دور کیاجائے اور ملک میں استحکام لایا جائے۔ ملک میں اس وقت انتخابی دھاندلی اور عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے تحریک انصاف مسلسل احتجاج کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حمایت سے قائم حکومت ان دونوں مسائل پر براہ راست کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے کی بجائے ، احتجاج منظم کرنے پر تحریک انصاف کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں مسائل سیاسی و انتظامی نوعیت کے ہیں۔ بلاول بھٹو کی اس بات کو اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ تحریک انصاف سیاسی مکالمہ کی بجائے اسٹبلشمنٹ سے بات کرکے راستے ہموار کرنا چاہتی ہے تو بھی انہیں حکومت کے معاون ہونے کی وجہ سے یہ بتانا چاہئے کہ 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی، بے قاعدگی اور دھوکے دہی کے الزامات میں پیپلز پارٹی کا کیا مؤقف ہے اور وہ کیوں حکومت کیوں اس بارے میں غلط فہمیاں یا شکایات دور نہیں کرتی۔ اگر انتخابی شکایات کے بارے میں مروجہ نظام شفافیت سے کام کررہا ہوتا اور تحریک انصاف کو الیکشن ٹریبونلز میں انتخابات میں ہونے والی کسی غیر قانونی کارروائی کے بارے میں دلائل و شواہد پیش کرنے اور انصاف لینے کا موقع مل جاتا تو یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ نہ ہوتا۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں پے در پے ترامیم اور مخصوص ججوں کو الیکشن ٹریبونلز ے ہٹانے کی کوششوں کی وجہ سے یہ عمل معطل ہے۔ اگر شکایات پر کسی غیر جانبدار فورم سے فیصلہ لینے کا قانونی و آئینی فیصلہ لینے کا حق ہی مسدود کردیا جائے گا تو کوئی سیاسی پارٹی کس طریقے سے اپنی بے بسی کا اظہا رکرے؟ اس کے لیے صرف احتجاج کرنا اور شور مچانا ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی یہ کہہ کر ذمہ داری سے گریز نہیں کرسکتی کہ وہ تو حکومت کا حصہ ہی نہیں ہے اور اس کے پاس تو کوئی وزارت بھی نہیں۔ انتخابی شکایات کو حتمی انجام تک پہنچانے کے قانونی راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے پارلیمنٹ نے جو بھی ترامیم منظورکی ہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ان کی حمایت کی ہے۔ درحقیقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر قانون سازی نہیں کرسکتی۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی پیپلز پارٹی اور اس کے چئیرمین نے اہم کردار ادا کیا اور کسی بھی قیمت پر اس ترمیم کو آئین کا حصہ بنالیا گیا۔ گو کہ تحریک انصاف کو جمیعت علمائے اسلام کے ذریعے کسی حد تک اس عمل میں شامل کیا گیا لیکن اس ترمیم کے حق میں وسیع تر پارلیمانی اتفاق رائے بہر حال موجود نہیں تھا۔ اس وقت بھی اس ایک نکتہ پر اختلاف تھا کہ حکومت اگر عمران خان کو رہا کردے تو تحریک انصاف 26ویں ترمیم کی حمایت کرنے پر راضی تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی کی کوششوں کے باوجود حکومت یہ بات ماننے پر آمادہ نہیں ہوئی۔
صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی دیگر قیادت مختلف ادور میں خود ریاستی جبر کا شکار رہی ہے۔ آصف زرداری کو تو متعدد بے بنیاد الزامات میں ایک دہائی سے بھی زیادہ مدت تک قید رکھا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کو بخوبی احساس ہونا چاہئے کہ کسی سیاسی لیڈر کو ملکی قانون کی مجبوریوں یا ’عدالتی اختیار‘ سے زیادہ بعض اداروں کی خواہش و ضرورت کی وجہ سے قید رکھا جاتا ہے۔ عمران خان پر سینکڑوں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ عدالتیں انہیں مسلسل ریلیف دے رہی ہیں لیکن ایک کیس میں ضمانت کے بعد انہیں کسی دوسرے بے بنیاد مقدمے میں حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ماضی میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے موجودہ حکومت اور اس کی حامی پارٹی کو یہ طریقہ تبدیل کرنے کی ضرورت تھی کیوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر بھی سابقہ ادوار میں اسی طرح پابند سلاسل رہے تھے جیسے اب عمران خان یا تحریک انصاف کو قید رکھا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں پارٹیوں نے اختیار و اقتدار حاصل ہونے کے باوجود سیاسی انتقام یاکسی جرم پر کارروائی میں فرق کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
کوئی یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ کسی لیڈر کو اس کے جرم پر سزا نہ دی جائے اور ملک کا عدالتی نظام خواص و عام لوگوں میں تخصیص کرے۔ لیکن یہ تخصیص منفی انداز میں بھی نہیں ہونی چاہئے۔ ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ملک کے قانونی و عدالتی نظام کو جان بوجھ پر مخالف سیاسی لیڈروں کو قید رکھنے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اگر یہ بات درست نہ ہوتی تو نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف، مریم نواز اور درجنوں دوسرے لیڈروں کے خلاف مقدمات ایک خاص حکومت کے خاتمہ پر دھڑادھڑ خارج نہ ہوتے۔ اس وقت عمران خان اور تحریک انصاف اسی صورت حال کا سامنا کررہی ہے۔ اس کے لیے معتوب پارٹی سے مفاہمت کا مطالبہ کرنے کی بجائے حکومتی سیاسی رویہ اور ملکی نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو قید رکھنا ایک تو شاید حکومت کی سیاسی مجبوری ہے کیوں کہ اسے خوف ہے کہ وہ رہا ہوکر کوئی ایسی تحریک چلا سکتے ہیں جو موجودہ نظام کو تاراج کردے۔ اس کی دوسری اور اہم ترین وجہ البتہ اسٹبلشمنٹ کی ناراضی ہے۔ اسی لیے عمران خان کی رہائی ناممکن بنی ہوئی ہے۔
اس صورت حال میں کوئی سیاسی پارٹی کیسے یہ محسوس کرسکتی ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کچھ لو اور دو کی بنیاد پر معاہدہ کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف کا یہ رویہ ناقابل قبول ہے کہ وہ سیاسی مکالمہ کی بجائے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کرکے مسائل حل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم اس مطالبہ یاخواہش کو غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری موجودہ حکومت اور اس کے حلیفوں پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ تحریک انصاف کے خلاف قانونی شکنجہ کسنے میں اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار کے طور پر متحرک نہیں ہے بلکہ ملکی نظام انصاف شفاف طریقے سے کام کررہا ہے۔ شہباز شریف کی حکومت ایسی کوئی شہادت فراہم نہیں کرسکی۔ پھر عمران خان سے کیسے یہ شکوہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیوں صرف طاقت کے اصل مراکز سے ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ملک میں سیاسی مکالمہ کی ضرورت پر زور دیا ہے تاہم واضح کیا ہے کہ اگر بات چیت سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو طاقت کا استعمال جائز ہوگا۔ پارٹی کے یوم تاسیس پر خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی استحکام قائم کریں۔ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن ہے جو جمہوری اور سیاسی کردار ادا نہیں کررہی۔ ادارے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ اس وقت کچھ جماعتیں سیاسی دائرے میں رہ کر سیاست نہیں کررہیں۔ 9 مئی جیسے واقعات سیاست کے دائرے میں نہیں آتے ۔گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ سیاست میں نہیں آتا‘۔ بلاول بھٹو زرداری کو ایک جماعت پر سیاسی انتشار کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے اس بات کا جواب بھی دینا چاہئے تھا کہ کیا موجودہ حکومت میرٹ کی بنیاد پر اقتدار میں ہے؟ کیا 8 فروری کے انتخابات میں کسی قسم کی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور کیا موجودہ حکومت اور سیاسی نظام واقعی عوام کے منتخب نمائیندوں پر مشتمل ہے اور یہ اسٹبلشمنٹ کی خواہش و ضرورت کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آیا؟
بلاول اگر ان سوالوں کا اطمینان بخش جواب دے پاتے تو تحریک انصاف کی سیاسی بے اعتدالی کو ضرور اسی عینک سے دیکھا جاسکتا تھا جس سے پیپلز پارٹی کے چئیرمین ہمیں دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اگر عوامی رائے کو دھاندلی کے ذریعے تبدیل کیا جائے گا اور طاقت کے زور پر ایک خاص پارٹی کی حکومت قائم کرائی جائے گی تو اس کی اتھارٹی اور نیک نیتی پر مسلسل سوال اٹھیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری سیاسی مکالمہ کو اہمیت دینے کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی تحریک انصاف پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بات چیت کا راستہ اختیار نہیں کرتی۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ جب حکومت ’ڈنڈا ‘ میز پر رکھ کر مذاکرات کی دعوت دے گی تو اسے کیسے قابل اعتبار سیاسی مکالمہ کا نام دیا جائے گا۔ وہ سانحہ 9 مئی اور اسلام آباد میں حالیہ احتجاج کو سیاسی دائرے سے باہر قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ایک پارٹی کا لیڈر تن تنہا کیسے یہ حکم صادر کرسکتا ہے کہ کون سی سرگرمی جائز ہے اور کسے غیر قانونی یا غیر سیاسی کہا جائے گا؟
حکومت اور فوج نے 9 مئی 2023کے واقعات کو ناقابل قبول اور ریاست پر حملہ قرار دے رکھا ہے۔ لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود اس معاملہ میں ملزمان کو سزائیں نہیں دلائی جاسکیں۔ اب اسلام آباد میں 26 نومبر کو ہونے والے تصادم کے نتیجہ میں بھی سخت قانونی کارروائی کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اگر کوئی حکومت ملکی سلامتی پر حملے کے ملزموں کو طویل مدت تک سزائیں دلانے میں ناکام رہتی ہے تو اس کے دو ہی جواب ہوسکتے ہیں۔ یا تو الزامات بے بنیاد ہیں یا ملک کا نظام فرسودہ و ناکارہ ہے۔ یہ مسئلہ حل کرنا اپوزیشن کا نہیں بلکہ حکومت اور اس کی معاونت کرنے والی پارٹیوں کا کام ہے۔ اگر بلاول عدالتی فیصلوں اور قصور واروں کو قانون کے مطابق سزا دلوانے کو طاقت کا استعمال کہہ رہے ہیں تو یہ جائز سیاسی مؤقف ہوتا ۔ لیکن انہوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ مذاکرات نہ ہوسکیں تو ریاستی تشدد استعمال کیا جائے۔
ریاستی تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ جنگوں کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جنگ اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوسکتی ہے اگر بعد از جنگ کوئی مربوط سیاسی منصوبہ موجود ہو جس پر فریقین بات چیت کے ذریعے متفق ہوسکیں۔ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ہونے والے احتجاج سے نمٹنے کے لیے مکالمہ اور سیاسی حکمت عملی کے علاوہ کوئی بھی طریقہ افسوسناک، ناجائز اور غیر پیداواری ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ